نچلی سطح کے انتخابات شفاف اوپر کیوں نہیں؟

پروفیسر جاوید ملک سے پرانا یارانہ ہے۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے بطور انٹرنیشنل میچ ریفری آف آئی سی سی پاکستان اور کئی ملکوں میں ٹیسٹ میچوں سمیت 97انٹرنیشنل میچوں میں میچ ریفری کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ گولڈ اولڈ راوین بھی ہیں یعنی چھ سال تک گورنمنٹ کالج لاہور جو اب یونیورسٹی ہے میں زیر تعلیم رہے، وہاں کی کرکٹ ٹیموں کی کپتانی بھی کی، انہوں نے کہا لاہور میں اولڈ راوین کے انتخابات ہیں، میں نے ووٹ ڈالنے جانا ہے، وقت ہے تو ساتھ چلیں۔ مجھے لاہور میں فرخ سہیل گوئندی اور بینا گوئندی کی والدہ صاحبہ کی وفات پر تعزیت کے لئے بھی حاضری دینی تھی اور معروف گلوکار اور پیارے دوست عدیل برکی نے بھی ایک تقریب موسیقی کی دعوت دے رکھی تھی، سو میں نے ساتھ چلنے کی حامی بھرلی۔ لاہور پہنچے تو پروفیسر جاوید ملک نے کہا وقت ختم ہو رہا ہے، پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ انتخابات برائے اولڈ راوین یونین میں ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی گئے تو وہاں خاصی رونق اور گہماگہمی تھی۔ ووٹنگ کا سلسلہ جاری تھا اور کنونسنگ بھی ہو رہی تھی۔ سب کچھ جمہوری انداز میں چل رہا تھا۔ میں نے جاوید ملک سے پوچھا کیا کبھی ان انتخابات میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی، کبھی دھاندلی کا الزام بھی لگا؟ انہوں نے کہا کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ یہ کوئی پاکستان کے عام انتخابات تھوڑی ہیں۔ یہ تو اولڈ راوین کے انتخابات ہیں جن میں امیدوار اور ووٹرز یہ سمجھ کے حصہ لیتے ہیں کہ بہت بڑی جمہوری سرگرمی ہی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ ہر شخص کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور نتائج کو بھی خوشدلی سے تسلیم کرکے ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ کم از کم ہمارے پڑھے لکھے طبقے میں یہ شعور موجود ہے کہ انتخابات میں ڈالی گئی پرچی ہر آمدی کی ایک رائے ہوتی ہے اور اس کا آئینی حق بھی ہے، اس آئینی حق کو اگر کوئی سبوتاژ کرتا ہے، ناجائز اختیارات سے رائے کو بدل دیتا ہے، نتائج میں گڑ بڑ کرتا ہے تو وہ سب کچھ ہو سکتا جمہوری اور مہذب شخص نہیں ہو سکتا۔ پروفیسر جاوید ملک ایک جمہوری ذہن کے فرد ہیں۔ خود بھی سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرکٹ ریفری کے طور پر انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں جانے کے مواقع ملتے رہے۔ وہاں وہ ایک سیاسیات کے پروفیسر ہونے کے ناتے مختلف یونیورسٹیوں میں بھی جاتے ہیں۔ہمارے ہاں علم سیاسیات اور زمینی سیاست میں بہت فرق ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ کئی حوالوں سے ایک دوسرے کے متضاد ہیں لیکن وہاں یونیورسٹیوں میں جو علم پڑھایا جاتا ہے، اس کی عملی شکل بھی معاشرے میں موجود ہوتی ہے۔
ابھی دوروز پہلے ملتان میں تھا تو ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات ہو رہے تھے۔ یہ انتخابات پورے صوبے میں ہوئے اور وکلاء نے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا۔ کہیں یہ آواز سنائی نہیں دی کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے۔ میرے بہت سے وکلاء دوستوں نے کہا بلاشبہ وکلاء انتخابات میں جوش و خروش بہت ہوتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اب اس عمل میں پیسے کی اہمیت بھی ہے۔ کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں، تاہم ووٹنگ اور گنتی کا عمل شفاف ہوتا ہے، اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عام انتخابات پر لوگوں کا یقین متزلزل ہو اور یہ تاثر موجود ہو، ووٹ کسی کو ڈالتے ہیں، نکلتا کسی کے حق میں ہے، وہاں ایسے شفاف انتخابات ایک انہونی لگتے ہیں مگر یہ ہوتے ہیں اور سب ان کے نتائج کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ایسے ہی انتخابات پریس کلبوں کے بھی ہوتے ہیں۔ لاہور پریس کلب کے انتخابات ایک بڑی جمہوری سرگرمی تصور کئے جاتے ہیں، جس میں ووٹرز اور امیدوار بھرپور حصہ لیتے ہیں، نتائج کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا جاتا ہے اور جیتنے والوں کو ہارنے والے مبارکباد دیتے ہیں۔ ان سب کی مدت بھی پوری ہوتی ہے، کوئی بیچ میں ٹانگ اڑا کر مڈٹرم کا ماحول پیدا نہیں کرتا۔ اسی طرح کی صورت حال تاجروں کے انتخابات کی بھی ہوتی ہے۔ شفاف انداز میں ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے اور جیتنے والی یونین کو پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ تاجروں کے مفاد کو یقینی بنانے کے لئے کام کرے۔ چیمبر آف کامرس کے انتخابات کو دیکھ لیں۔ وقت مقررہ پر ہوتے ہیں اور جمہوری طریقے سے نمائندوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے جمہوریت ہماری صفوں میں موجود ہے اور شفافیت بھی، مگر اس کے باوجود جب قومی انتخابات کا موقع آتا ہے تو انتخابات پر انگلیاں بھی اٹھتی ہیں اور نتائج پر یقین بھی نہیں کیا جاتا۔ دھاندلی کے خلاف تحریک بھی چلتی ہے اور دھرنے بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ مجھے تو یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ایک معاشرہ جو اپنے چھوٹے چھوٹے انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنا دیتا ہے، اپنے قومی انتخابات کو متنازعہ کیوں بنا دیتا ہے؟
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس میں قصور عوام کا نہیں ہے۔ وہ قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ بھی ڈالتے ہیں اور جمہوریت پر یقین بھی رکھتے ہیں، مگر بدقسمتی سے جو لوگ انتخابات کرانے کی ذمہ داری لیتے ہیں، وہ اپنا فرض ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتے۔8فروری کے انتخابات نے تو فارم 45اور فارم 47کی نئی کہانی بھی سنا دی۔ جو عوام نے پہلے کبھی سنی نہیں تھی۔ ملک بھر میں اتنے بڑے پیمانے پر انتخابات ہوتے ہیں۔ کروڑوں ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، ملک کے طول و عرض میں ہونے والی اس سرگرمی میں اکا دکا واقعات کے سوا فضا پرامن رہتی ہے۔ اس سے زیادہ عوام کو جمہوری مزاج کیا ہو سکتا ہے، مگر آخر پر آکر یعنی فنشنگ لائن پر پہنچ کر سارا معاملہ گڑ بڑ ہو جاتا ہے، کیوں بھئی یہ کیا جادو ہے جو ایک جمہوری معاشرے کو بے توقیر کر دیتا ہے۔ دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے کہ دیکھو انتخابات کرائے تھے دھاندلی کے الزامات لگ رہے ہیں۔ یہ اوپر کی سطح پر آخر کیا ہوتا ہے جو عوام کی سطح کی جمہوریت اور اس کے فیصلوں کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ عوام کا جمہوری حق ان کی ووٹ کی پرچی ہے، اس پرچی کا احترام کب کیا جائے گا؟