بجلی کے بغیر ایک دن

بجلی کے بغیر ایک دن
بجلی کے بغیر ایک دن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ملک بھر میں بجلی کا بریک ڈاﺅن ہوا تو یہ راز بھی کھلا کہ آج کی زندگی کا نام بجلی ہے۔سارا نظام بجلی سے چل رہا ہے،یہ بند ہو تو سب کچھ رُک جاتا ہے۔15گھنٹے سے زائد کا یہ بریک ڈاﺅن زندگی کو مفلوج ہی نہیں کر گیا بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ ہم نے زندگی کو کتنا مصنوعی بنا رکھا ہے۔ جب ساری آسائشوں کا انحصار بجلی پر آ جائے تو پھر بجلی کے بغیر زندگی پتھر کے زمانے کی ہی لگے گی۔سوموار کی صبح کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ساڑھے سات بجے جو بجلی گئی ہے وہ کسی شیڈول کے مطابق نہیں گئی بلکہ ایک بڑی خرابی کے نتیجے میں گُل ہوئی ہے۔اُس کے بعد آہستہ آہستہ چیزیں بند ہونا شروع ہوئیں۔ آج کل کے درد کی سب سے بڑی کمزوری انٹرنیٹ ہے جس کی ضرورت کھانے سے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ اِس کے ذریعے فیس بُک اور واٹس ایپ کے علاوہ دنیا جہان کی چیزیں انسان کی دسترس میں آ جاتی ہیں۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے میں نے دیکھا کہ پی ٹی سی ایل کا نیٹ بند ہو گیا ہے۔اُس وقت تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ بجلی کسی بڑے بریک ڈاﺅن کے نتیجے میں گئی ہے۔ میں نے لائن مین کو فون کیا، شکر ہے اُس نے فون اُٹھا لیا۔ شاید اِس لئے کہ اُسے معلوم تھا اِس بار نیٹ ہماری وجہ سے نہیں بجلی کی وجہ سے گیا ہے۔اُس نے بتایا کہ ملک بھر میں بجلی بند ہو گئی ہے،اِس لئے پی ٹی سی ایل کا سسٹم بھی بند ہو چکا ہے۔ میں نے کہا بھائی پی ٹی سی ایل کے فون تو آندھی، طوفان، بارش میں بھی چلتے رہتے ہیں،اُن کا بجلی سے کیا تعلق، کہنے لگا: ”سر یہ فون کی بات نہیں انٹرنیٹ کی بات ہو رہی ہے جو اُس وقت چلتا ہے جب سرور چلتا ہے، جب جگہ جگہ لگے ہوئے ایکسچینج بجلی سے چلتے ہیں، تب مجھے اندازہ ہوا کہ بڑی بڑی کمپنیاں جو ہر ماہ صارفین سے اربوں روپے لیتی ہیںاُنہوں نے بجلی کا کوئی متبادل نظام وضع نہیں کیا حالانکہ جنریٹر کے ذریعے اپنے نظام کو چلایا جا سکتا ہے مگر یہاں مجھے ایک موبائل کمپنی کے فرنچائزر خواجہ اقبال کا بھیجا ہوا ایک میسج یاد آ گیا جس میں اُن کی کمپنی نے اپنے صارفین کو متنبہ کیا تھا کہ ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ اپنے موبائل ٹاورز کو طویل لوڈشیڈنگ کے دوران آن نہیں رکھ سکتے اِس لئے سروس میں تعطل آ سکتا ہے۔اب مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ نیٹ بند ہونے کی وجہ سے آج کالم کیسے لاہور ای میل ہو گا۔اِس خیال سے سوچا کہ موبائل کمپنی کا ایک پیکیج لیتا ہوں تاکہ اُسی کے ذریعے سوشل میڈیا بھی چلے اور کالم بھی بھیج سکوں۔میں نے اےک موبائل نیٹ پیکیج خرید لیا،اُس وقت تک بجلی کو گئے ساڑھے پانچ گھنٹے گذر چکے تھے۔


 میں نے جب کالم لکھنے کے بعد روزنامہ”پاکستان“ لاہور کو ای میل کرنے کی کوشش کی تو کالم میل نہ ہوا،بہت دیر تک کوشش کرنے کے بعد جب کامیابی نہ ملی تو میں نے اپنی کالونی میں رہنے والے کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ کو فون کیا۔ حیرت انگیز طور پر اُن کا نمبر بند ملا جو عموماً نہیں ملتا۔ میں نے گھر سے باہر نکل کر اُس طرف کا رخ کیا جہاں موبائل ٹاور لگا ہوا تھا۔ جب بھی لائٹ جاتی تو اِس ٹاور سے جنریٹر چلنے کی آواز آ رہی ہوتی تھی اُس وقت نہیں آ رہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ٹاور بند پڑا ہے اِس لئے نیٹ اور فون کی سروس بھی معطل ہو گئی ہے۔میں نے ٹاور والے عملے سے پوچھا کہ جنریٹر کیوں نہیں چلایا تو اُنہوں نے بتایا کہ صرف دو گھنٹے کا بیک اَپ ڈیزل ہوتا ہے،اُس کے بعد جنریٹر بند ہو جاتا ہے، اب تو بجلی گئے چھ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ یہاں سے مایوس ہو کر میں نے گاڑی نکالی اور صدر بازار کینٹ چلا گیا۔مقصد یہ تھا کہ کہیں سے کالم میل ہو جائے، خوش قسمتی سے کینٹ والا موبائل ٹاور ابھی آن تھا، پھر مجھے ایک دوست نے جو موبائل کمپنی میں افسر ہیں، بتایا کہ کمپنیوں نے اپنی بچت کے لئے زیادہ تر موبائل ٹاور کو بجلی جانے کے دو گھنٹے بعد بند کرنے کے آپشن پر رکھا ہے۔ کچھ کو سارا دن چلایا جاتا ہے تاکہ سروس کے معطل ہونے کا الزام عائد نہ ہو سکے۔گویا ٹیکنالوجی کے سب معاملات کی ماں بجلی ہے،جو جائے تو سارا نظام اتھل پتھل ہو جاتا ہے۔ میں چار بجے اپنے بینک گیا تو عجیب صورت حال دیکھی کہ عملہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا، اے ٹی ایم بند تھی اور چیکوں کا لین دین نہیں ہو رہا تھا۔ کاﺅنٹر پر بیٹھا ہوا عملہ کیش دے رہا تھا نہ لے رہا تھا کیونکہ انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے سسٹم بند ہو چکا تھا۔ بعض لوگ دہائیاں دے رہے تھے کہ بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے اوراُنہیں جرمانہ لگ جائے گا مگر بینک کے اہلکار اُن کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ گویا بجلی نے یہاں بھی نظام کو مفلوج کر دیا تھا اور اتنا بڑا بینکنگ سیکٹر اپنا کوئی متبادل نظام وضع نہیں کر سکا، بجلی کے جانے سے وہ بھی ایسے چاروں شانے چت ہو جاتا ہے، جیسے کوئی کمزور پہلوان طاقتور کے مقابل ہوتا ہے۔


بجلی کے اِس طویل بریک ڈاﺅن کے دوران بہت سے اچھے واقعات بھی ہوئے جہاںانسانوں نے انسانیت کو شرمانے والے فیصلے کئے، 10 روپے کی موم بتی 50 کی کر دی، ٹارچ کا ریٹ 500روپے بڑھا دیا، کرائے پر جنریٹر دینے والوں نے لوٹ مچا دی دی، بہت سے خدا ترس لوگوں نے عوام کی امداد کا ایک احسن راستہ نکالا۔ ایک بریک ڈاﺅن کے سب سے زیادہ اثرات پانی کی فراہمی پر پڑے، سرکاری پانی بھی آنا بند ہو گیا اور موٹروں کے ذریعے پانی نکالنے کا سلسلہ بھی رُک گیا کیونکہ بجلی نہیں تھی۔اِس دوران میں نے اکثر لوگوں کو خالی کین اور بوتلیں اُٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں دیکھا۔ میں ابھی موبائل فون کی رینج ہی میں تھا کہ مجھے سابق ناظم راﺅ مظہر الاسلام کا فون آ گیا۔اُنہوں نے بتایا کہ پانی کی شدید کمی کے باعث لوگ پریشان ہیں، اُنہوں نے جنریٹر کا بندوبست کر لیا ہے اور پانی کی موٹر چلا دی ہے جن لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو اُنہیں میرے گھر بھیج دیں۔جب چاہیں جتنا چاہیں صاف پانی حاصل کر سکتے ہیں اِسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہ کام شہر کے مختلف حصوں میں خلق ِ خدا کا درد رکھنے والے کر رہے ہیں اور اُنہوں نے شہر کو کربلا نہیں بننے دیا جہاں موبائل کمپنیاں اور بینک جو صارفین سے اربوں روپے کماتی ہیں،اب سروس بحال رکھنے کے لئے جنریٹر نہیں چلاتیں وہاں یہ لوگ اپنی جیب سے جنریٹر کے ذریعے پانی کو موٹریں چلا کے عوام کو پانی مہیا کر رہے ہیں جو بہت بڑی نیکی ہے۔کل بجلی نہ ہونے سے ویسے تو سبھی متاثر ہوئے تاہم ایک طبقہ اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گیا۔وہ طبقہ ہے مزدور پیشہ افراد کا، صبح ساڑھے سات بجے بجلی گئی تو یہی وقت ہوتا ہے اُن کو مزوری ملنے کا۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تمام تعمیراتی کام رُک گئے اور اُس دن اُن کی ہر جگہ سے چھٹی کرا دی گئی۔ دیہاڑی کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے یہ لوگ جب گھروں کو خالی ہاتھ لوٹے ہوں گے تو نجانے اُن پر اور بچوں پر کیا گزری ہو گی۔


دِل دہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ اس بریک ڈاﺅن کی وجہ سے ہسپتالوں میں آپریشن نہیں ہو سکے۔نجانے کتنے مریضوں پر یہ دن قیامت بن کر گذرا ہو گا۔ حیرت یہ ہے کہ ہم نے ہسپتالوں میں بھی بجلی کے متبادل انتظام پر کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ اس کی اشد ضرورت ہے۔ کل رات بڑے بڑے شاپنگ مال اُسی طرح جگمگا رہے تھے۔ ملتان میں میٹرو بس بھی چل رہی تھی اور اُس کا روٹ بھی روشن تھا کیونکہ اُس کے پراجیکٹ میں بجلی کا متبادل نظام شامل کیا گیا تھا۔ کیا بجلی کے اِس بڑے تعطل کے بعد یہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے کہ کم از کم ملک کے بڑے ہسپتالوں کو بجلی کا متبادل نظام فراہم کیا جائے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں آپریشن اور ہسپتال کی دیگر سروسز معطل نہ کرنی پڑیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے اگرچہ اِس سارے عمل کی تحقیقات کا حکم تو دے دیا ہے مگر رات گئی بات گئی کی طرح اِس معاملے کو دبا دیا جائے گا۔اِس دوران کتنے ارب روپے کا نقصان ہوا، لوگوں کو کس اذیت سے گزرنا پڑا اور زندگی مفلوج ہونے سے کتنے لوگوں کا یہ دن اُن کا ڈراﺅنا خواب بن گیا، بالا دست طابقوں کو اِس کی کیا فکر؟بہرحال اِس ایک دن نے ہماری زندگی کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیا ہے کہ ہم بجلی نہ ہونے سے کس قدر بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -