برطانوی سکھوں کو مودی حکومت سے خطرات

        برطانوی سکھوں کو مودی حکومت سے خطرات
        برطانوی سکھوں کو مودی حکومت سے خطرات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کینیڈا اور امریکہ میں مقیم سکھوں کے قتل کے بعد اب برطانیہ میں آباد خالصتان کے حامی سکھوں کی جان کو بھارت سے خطرات لاحق ہیں اور انہیں بھارت کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگی ہیں جس کے بعد برطانیہ کے ارکان پارلیمان نے سکیورٹی منسٹر سے ملاقات کی درخواست کر دی ہے۔اس حوالے سے برطانوی پولیس نے وارننگ بھی جاری کردی ہے۔برطانیہ کی انسداد دہشت گردی پولیس نے خالصتان کے حامیوں کوبھارت سے لاحق خطرات سے آگاہ کر دیا ہے۔

برطانیہ میں خالصتان تحریک کے لئے سرگرم اوتارسنگھ کھنڈا گزشتہ جون میں پُراسرار طور پر انتقال کر گئے تھے، جس کے چند روز بعد سکھ فار جسٹس کے کینیڈا چیپٹر کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا تھا۔لواحقین کوشبہ ہے کہ اوتارسنگھ کھنڈا کو بھی بھارت نے زہر دے کر ہلاک کیا ہے۔ ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے اوتارسنگھ کھنڈا کی موت کی مزید تحقیقات کے مطالبے کے بعد وارننگ جاری کی ہے۔ برطانیہ میں جان کو درپیش خطرے کی وارننگ پولیس کے پاس خطرے کی نشاندہی کے ثبوت پر جاری کی جاتی ہے۔

برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برطانیہ کے سکیورٹی منسٹر سے ہنگامی اجلاس بُلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ایس این پی کے کرسٹن اوسوالڈ اور مارٹن ڈوچرٹی ہیوز نے لارڈ ٹام واٹسن کے نام خط لکھا جب کہ ارکان پارلیمان کی جانب سے خط برطانوی سکیورٹی منسٹر ٹگینڈہاٹ کو لکھا گیا ہے۔ ٹام ٹگینڈ ہاٹ کو باضابطہ درخواست دینے والوں میں رکن ِ پارلیمان پریت کورگل، افضل خان، تنمن جیت سنگھ ڈھیسی، کنزر ویٹوو کیرولین نوکس شامل ہیں اور انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سے دنیا بھر میں سکھوں کو لاحق خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ارکان پارلیمان کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ اس ہفتے کئی برطانوی سکھوں کو پولیس نے نوٹس دیا ہے جس میں انہیں ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔ برطانوی سکھ فیڈریشن (یو کے) کے مشیر جس سنگھ نے خطرے کو تشویشناک قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آزاد وطن کی مہم چلانا افراد کا قانونی حق ہے، چاہے وہ برطانیہ میں ہو یا بیرون ملک۔

 سکھ رہنما ہردیپ سنگ کو گزشتہ سال جون میں کینیڈا میں قتل کیا گیا تھا اور کینیڈین حکومت نے ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ہردیپ سنگھ نجر جو بھارت کو 25 سال قبل خیرآباد کہہ کر کینیڈین شہری بن گئے تھے، کو گزشتہ برس جون میں ایک گردوارے کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ وہ خالصتان تحریک سے وابستہ رہنما تھے۔اس کے بعد امریکہ میں مقیم سکھ رہنما پتونت سنگھ پنون کو ہدف بنانے کا منصوبہ تھا،مگر بروقت اطلاع کے پیش نظر یہ منصوبہ نہ صرف پکڑا گیا، بلکہ بھارتی سرکار کے ایک افسر کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔اسی دوران برطانیہ میں بھی سکھ کارکن اوتار سنگھ کی برمنگھم میں اچانک موت ہو گئی تھی، جس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

بھارت کے لئے یہ بات بہت پریشانی کا باعث بن رہی ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے برطانیہ اورکینیڈا کی حکومتوں کو خطوط لکھے گئے ہیں کہ وہ اپنے ممالک میں سکھ تنظیموں کو بھارت کے خلاف کسی تحریک اور جدوجہد سے روکیں، لیکن دونوں حکومتوں نے ان خطوط میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پُرامن احتجاج سکھوں کا حق قرار دیا ہے۔

 1984ء میں جب اِس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سکھ علیحدگی پسندوں کو گولڈن ٹیمپل سے نکالنے کے لئے آپریشن کا حکم دیا تو یہ سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازع کا فلیش پوائنٹ بن گیا تھا۔اس افسوسناک سانحہ کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مقیم سکھ قوم اور بالخصوص مشرقی پنجاب کے سکھوں نے ہندوؤں سے انتقام لینے کے لئے انہیں مارنا شروع کر دیا۔ اس واقعہ پر سارے بھارت میں سکھوں کو چُن چُن کر موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ ہزاروں سکھوں کے قتل عام کے بعد سکھ قوم نے انتقام لینے کا تہیہ کر لیا اور آخر کار اس کے نتیجے میں وزیراعظم ہاؤس میں سکھ اہلکاروں نے وزیراعظم اندرا گاندھی پر فائر کر کے اسے جہنم واصل کر دیا۔ اندرا گاندھی تو نشان عبرت بن گئی، لیکن ہندوؤں نے ایک بار پھر دہلی اور دوسرے صوبوں میں ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تب بھی سکھوں کی تحریک آزادی دبی نہیں تھی اور سکھ آزادی کے حصول کے لئے کئی منصوبے بناتے رہے۔ سکھوں کی نسل کشی کو 39 برس سے زائد کا عرصہ ہو چکا اور لاکھوں سکھ مرد و خواتین بھارت کی درندگی کی بھینٹ چڑھنے کے باوجود سکھ قوم اپنا مقصد نہیں بھولی ہے۔آج کوئی بھی خالصتان کی حق ِ خودارادیت کی جنگ لڑتا ہے تو بھارت ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔

پنجاب کے سکھوں اور نریندر مودی کی حکومت کے درمیان تعلقات اس وقت سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جب سکھ کسانوں نے نئے زرعی قوانین کے خلاف سال بھر تحریک چلائی اور دارالحکومت نئی دہلی کا گھیراؤ کیا، جس کے بعد مودی حکومت نئے قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

تحریک خالصتان درحقیقت سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔زیادہ تر سکھ بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر ان کا مرکزی شہر ہے۔ 1980ء کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کر کے اس تحریک کو کچل ڈالا۔جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، سکھوں کی اکثریت اب خالصتان کو بنانے کے لئے متحد ہوچکی ہے اوردنیا کے کئی ممالک ان کے ساتھ ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -