والدین ہم بچوں کی سالگرہ ضرور مناتے، مہمان صرف ہمسائے ہوتے لیکن کیک بڑا کاٹا جاتا، ابا جی نے ہماری تصاویری البم عرصہ تک محفوظ رکھیں
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط33:
گور،گرما گرد کی سرزمین ملتان؛
قدرت کا کمال ملاحظہ ہو کوئٹہ کے سرد موسم سے میری پیدائش کے سال سوا سال بعد والد کا تبادلہ گور،گرما، گرد کی سر زمین ملتان ہو گیا کہ kazer engineers کا اگلا پراجیکٹ ملتان چھاؤنی کی تعمیر تھا۔ میری چھوٹی بہن گھنگھریالے بالوں والی فرح حمید (پیار کا نام ”ببلی“)اب فرح مجاہد مارچ 1960ء کو یہیں پیدا ہوئی۔وہ شفیق، رحم دل، پیار کرنے والی بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ثابت ہوئی۔اس کی شادی مجاہد سعید(یو بی ایل میں اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے) سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوئی۔ اس کے 2بیٹے(سکندر سعید، عثمان سعید)اور ایک بیٹی(فائزہ سعید) ہے۔ فائزہ کو اللہ نے 2بیٹے شاہ زیب اور سر بلند عطا کئے۔
ملتان کا شمار ایشیاء کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ایران کے مشہور مورخ ”فرشتہ“ کے مطابق یہ شہر حضرت نوح ؒ کے بیٹے نے آ باد کیا تھا۔ محمد بن قاسم کے پاؤں کے نشانات بھی یہاں ملتے ہیں۔یہ مدینہ اولیاء بھی کہلاتا ہے۔
اللہ ہی جانتا ہے؛
ملتان ہم گلگشت کالونی میں رہتے تھے۔یہاں ہمارے ہمسائے حبیب صاحب تھے۔(ان کے بھائی کا نام میرے ذھن سے محو ہو چکا ہے۔) ان کے ہمارے ساتھ گہرے مراسم تھے اور عرصہ تک ہم ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہوتے رہے۔ جب ہم لاہور آئے تو معلوم ہوا وہ میرے عزیز دوست خرم کے والد ”پا پا جی“(ہم سب خرم کے والد کو پاپا جی کہتے تھے) کے چچا زاد بھائی تھے۔ عرصہ دراز بعد ان سے ملاقات خرم کی شادی پر ہوئی تو میری والدہ کو انہوں نے پہچان لیا تھا اور دیر تک وہ پرانی باتوں اور یادوں کو یاد کرتے رہے تھے۔
میرے والدین ہم بچوں کی سالگرہ ضرور مناتے۔ مہمان صرف ہمسائے ہی ہوتے لیکن کیک بڑا کاٹا جاتا تھا۔ میری اور میری چھوٹی بہن کی سالگرہ پر ملتان کے مشہور فوٹو گرافر”غفور صاحب“ فوٹو گرافی کے لئے خاص طور پرآتے تھے۔ ابا جی نے ہماری سالگرہ کی تصاویری البم عرصہ تک محفوظ رکھیں۔ شاید اب بھی کچھ تصاویر میرے یا میری چھوٹی بہن فرح کے پاس ہوں۔ابا جی میری اور فرح کی پیدائش کے بعد ڈائیری بھی لکھتے رہے کہ کس دن ہم نے کیا کیا۔یہ بہت دلچپ اور والد کی محبت کی نشانی تھی جو کہیں گم ہو گئیں۔میں نے بعد میں اپنے بچوں عمر، احمد اور پوتی امیرہ کی ڈائیری بھی لکھی۔ امیرہ کی ڈائیری تو اس کی کسی سالگرہ(پانچوایں سالگرہ کا میں نے سوچ رکھا ہے۔)پر بڑا تحفہ ہو گا۔ بشرط کی عمر نے اجازت دی۔
ملتان کا ایک واقعہ جو میں نے ابا جی سے سنا تھا میری یاد سے کبھی بھی محو نہ ہوا۔ یہ پاکستانی افسر شاہی اور کلرک بادشاہوں کی کہانی ہے جو اس دور میں بھی تھی مگر اس دور کی نسبت آج ایسا رویہ ہماری عادت ہی بن چکا ہے۔ اس دور میں ملتان میں واپڈا کی بجلی نئی نئی آ ئی تھی۔ میرے والد نے بجلی کے کنکشن کے لئے درخواست دی اور دفتری سپرنٹنڈنٹ چوہدری سخاوت سے پوچھا؛”چوہدری صاحب!کتنے دنوں میں کنکشن لگ جائے گا۔“ اس نے روایتی بے اعتناہی سے جواب دیا؛”ملک صاحب! اللہ ہی جانتا ہے کب لگے گا۔“ والد کے اصرار کے باوجود چوہدری کا یہی جواب رہا۔ والد نے جاتے ہوئے اسے کہا؛”چوہدری صاحب! فرشتہ بتا گیا ہے کہ کنکشن آج شام تک لگ جائے گا۔“ وہ مسکرایا اور بولاا؛”ملک صاحب! آج تک تو ایسا نہیں ہوا ہے۔“ والد نے پلٹ کر کہا؛”آج ایسا ہی ہوگا۔“ دفتر آئے اور پراجیکٹ ڈائریکٹر””کرنل ریچ“ سے ملے۔(امریکیوں میں کوئی پرٹوکول نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ماتحت اپنے باس یا بڑے افسر سے ملاقات کرکے اپنی مشکل سے آ گاہ کر سکتا ہے۔ وہ بات سنتے اور مشکل حل بھی کرتے ہیں۔ ایسے ہی نہیں وہ دنیا کی سپر پاور۔)(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔