اپنے دین کی توقیر کروانی ہے یا تماشا بنانا ہے؟
پاکستان ایک مسلم معاشرہ ہے اور ہر معاشرہ اپنے دین اور اپنے عقائد پر کاربند ہو کر ایسے رویے اپناتا ہے کہ دنیا میں وہی سب سے اچھے نظر آئیں. ہر انسان کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جو بھی عقیدہ اپنانا چاہے اپنا سکتا ہے. لیکن اسے یہ حق قطعی طور پر حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کے عقیدے کی توہین کرے یا کسی کو زبردستی اپنے عقیدے پر قائل کرنے کی کوشش کرے،دنیا میں زیادہ تر لوگ پیدائشی طور پر کسی مذہب کے پیروکار بنا دییے جاتے ہیں اور پھر وہ ساری زندگی اسی مذہب کو درست سمجھتے اور باقی سب سے انکار کرتے ہیں. بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے مختلف مذاہب کی تحقیق کے بعد درست یا غلط راستہ اپنایا ہوگا. ورنہ جو جس مذہب میں پیدا ہوا اس نے اسی کا پیروکار بن کر زندگی گزار دی،سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جس مذہب یا دین کے پیروکار ہوتے ہیں اس پر بھی تحقیق نہیں کرتے کہ اس کی اصل روح کیا ہے. عصر حاضر میں تمام ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت مذہبی جنونی نہیں ہے. بلکہ انہوں نے اچھے مذاہب کے بنیادی اصولوں کو اپنا کر اپنے معاشروں میں ایسی رواداری قائم کی ہے کہ وہاں مذہب کے نام پر تفرقہ بازی ہوتی ہے نہ دنگے فساد برپا ہوتے ہیں لیکن افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک میں مذہب کے نام پر قتل و غارت ہوتی رہتی ہے ان ممالک میں پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے جہاں اپنے دین پر چلنے والے انتہائی کم لوگ رہ گئے ہیں اور مذہب کے نام پر ذاتی مفادات اٹھانے اور فساد برپا کرنے والے اس طرح غالب آ گئے ہیں کہ ان کے سامنے ریاست بھی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے 80 کی دہائی سے شروع ہونے والی تفرقہ بازی اور انتہا پسندی نے معاشرے کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ہے،ہم دنیا کی نظروں میں دہشت گرد بن کر رہ گئے ہیں. جہاں پر بھی کوئی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا، دیکھا دیکھی ایک ہجوم اکٹھا ہوتا ہے اور بغیر کسی تحقیق کے ملزم پر جھپٹ پڑتا ہے،یہ ایک انتہائی خطرناک چلن ہے. آئے دن کسی کو اس بنیاد پر تشدد کر کے یا جلا کر مار دیا جاتا ہے کہ اس نے توہین قرآن یا توہین اسلام کی ہے. مردان، گوجرانوالہ، ننکانہ صاحب، چونیاں، سیالکوٹ، شیخوپورہ، جڑانوالہ، سرگودھا اور سوات واقعات اس کی مثالیں ہیں.،کس طرح آناً فاناً ہجوم جمع ہو کر کسی فرد پر تشدد کر کے اسے ہلاک کر دیتا ہے اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہ جاتی ہے،آج تک یہ سمجھ نہیں آئی ہے کہ توہین قرآن، توہین رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم یا توہین مذہب ہوتی کیوں اور کیسے ہے،ایک طرف ہمارے نبی کریمؐ کا یہ مقام کہ وہ دو جہاں کے رحمت العالمین ہیں اور اپنی مکی اور مدنی زندگی کے دوران کسی کو اذیت دی نہ کسی اذیت دینے والے سے بدلہ لیا، تو دوسری طرف یہ کہا جائے کہ ایک جاہل انسان جس کو دین کا پتا نہ دنیا کا علم نااعوذ باللہ وہ اس پاک ہستی کی توہین کر سکتا ہے؟ اسی طرح قرآن پاک ایک ایسی آفاقی اور مستند کتاب اللہ ہے جس میں کوئی شک نہیں تو ایسی کتاب کی توہین کیسے ہو سکتی ہے؟ اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ توہین ہوتی کیا ہے. کیا ہم مسلمان خود اجتماعی طور پر قرآن کی توہین کے مرتکب نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا آپ کلام پاک کو اہمیت دینے کی بجائے کاغذ کی تعظیم کو قرآن پاک کی عزت سمجھتے ہیں؟ کاغذ تو عام ہوتا ہے. اصل چیز تو وہ اللہ کا پیغام ہے جس پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے. ذرا غور کیجیے کہ ہم کلام پاک پر کتنا عمل کر رہے ہیں؟ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر قدم قدم پر قرآنی آیات اور اللہ کے احکامات کی حکم عدولی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو کیا یہ توہین نہیں ہے؟ اگر کوئی مجذوب، پاگل یا غیر مسلم شخص قرآن پاک کے کسی ورق کو بے ادبی سے پھینک دیتا ہے،تو یہ بڑا گناہ ہے یا اس قرآن کے احکامات سے روگردانی زیادہ بڑا گناہ ہے؟ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ قرآنی قوانین توڑنے سے اس کے ورق پھاڑ دینا زیادہ توہین ہے تو پھر سزا دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا کسی عام فرد یا کسی گروہ کو ملکی قانون کے مطابق یہ اختیار ہے کہ وہ کسی ایک بندے کے کہنے پر کسی ایسے بندے کی جان لے لے جس پر الزام لگایا گیا ہو کہ اس نے کوئی توہین کی ہے؟ اس طرح دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ہوتا ہے؟ نہیں کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا ہے،بھارت میں کبھی کبھار ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ گائے ذبح کرنے پر کسی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا،لیکن مجموعی طور پر دنیا میں سب سے زیادہ مذہب کے نام پر قتل اور ہنگامہ آرائی کے واقعات پاکستان میں ہوتے ہیں،ملائیشیا، ترکیہ،عرب امارات، لبنان، مصر، مراکش، اردن، تیونس اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت کسی بھی مسلمان ملک میں اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تو کیا یہ ساری ذمہ داری پاکستان کے مسلمانوں نے لے رکھی ہے؟ یہ بحث کیے بغیر کہ اس طرح کے واقعات پر اسلام کے کیا قوانین ہیں پاکستان کے قانون کے مطابق بھی سوچا جائے تو بھی کسی ایسے واقعہ (کے حوالے سے) قانون پر عملدرآمد ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے،ناکہ کسی ہجوم کی، ایک عرصے کے دوران توہین مذہب کے بیسیوں ایسے کیس عدالتوں میں لائے گئے جن کے ملزمان ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہوئے تو بعد میں ہجوم یا کسی مذہبی گروہ کے کارندوں نے انہیں قتل کیا، ان تمام واقعات کے پیچھے وہ مذہبی انتہا پسندی کارفرما ہے جو مختلف الخیال فرقوں کے مدرسوں میں پروان چڑھائی گئی ہے، کیا ان حالات میں دنیا پاکستان کو ایک مہذب ملک کے طور پر قبول کرے گی اور پاکستان میں سیاحت کا کوئی مستقبل ہوگا؟ اس انتہا پسندی اور لاقانونیت کا مظاہرہ کر کے ہم اپنے دین کی توقیر میں اضافہ کرنے کی بجائے اپنے دین کو دنیا کے سامنے کم تر دکھانا چاہتے ہیں. اس طرح کے واقعات ملک میں بدامنی اور لاقانونیت کو تقویت دینے کا موجب بنتے ہیں، جہاں کوئی بھی جتھہ اٹھ کر ریاست کو بے بس کر سکتا ہے،تھانے عوام کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں. اگر تھانوں کے اندر بھی کوئی محفوظ نہیں تو باہر پولیس کیسے تحفظ فراہم کر سکے گی؟ ریاست جس طرح سیاسی جماعتوں کو قابو کرتی ہے کیا اسی طرح ان مذہبی انتہا پسندوں کو قابو نہیں کر سکتی ہے؟ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر سیاسی جماعتیں بھی اپنے جتھے تیار کر سکتی ہیں اور ریاست مزید کمزور ہو گی۔