علم کی دولت
علم کا شوق اور مطالعہ کا ذوق ایک ایسا نشہ ہے جس کا ذائقہ صرف وہی جانتا ہے جس نے اسے چکھا ہے، اس لئے قدرت نے یہ شوق اور ذوق صرف انہی لوگوں کو بخشا ہے جو اس کے اہل پائے گئے ، علم انسان کو باخبر اور مطالعہ کشادہ نظر بناتا ہے۔ دنیا شاید ابھی تک’’ خبر ونظر‘‘ کے کیف سے پوری طرح آگاہ نہیں ورنہ زندگی کی ترجیحات میں اسے سر فہرست رکھتی۔
بلا شبہ اقتدار کا نشہ بہت مست کرنے والا ہے لیکن اترنے میں دیر نہیں کرتا، اسی طرح دولت کی شراب ایک بار تو لوٹ پوٹ کردیتی ہے مگر ہر گھونٹ تلخ ہوتا ہے۔ اس کا پاٹا، سمیٹنا، سنبھالنا، بچانا ایک دردِ سر ہے، رہ گیا علم، تو وہ ایک نور ہے جو انسانی شخصیت کو اجالا دیتا ہے اور مطالعہ ایک سرور ہے جو بندے کو عمر بھر مسحور رکھتا ہے اورتلخی ایام کو اس سے دور کئے دیتا ہے ، اہل دولت کہتے تو ہوں گے کہ یہ’’ بیچارے پڑھا کو‘‘ معلوم نہیں کس عذاب میں گرفتار رہتے ہیں لیکن’’پڑھاکو‘‘ بھی یہ سوچتے ہیں کہ اہل دولت پتہ نہیں خدا کی کس گرفت میں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک ننانوے کے پھیر میں ہے کوئی آج تک پورا سو نہیں کرپایا، قارون سے لے کر آج تک کے دولتئے کا ایک ہی مسئلہ چلا آرہا ہے، اسی باعث ابن خلدون نے کہا ہے کہ ’’ کاملان فن کو رزق کا حصہ ان کے ہنر میں مل جاتا ہے اوروہ اپنے فن اور ذوق میں مگن رہتے ہیں۔‘‘
البیرونی نے تو بہت آگے کی بات کی ہے کہ’’ اہل علم کو تو کبھی دولت کی کمی کااحساس ہوجاتا ہے مگر اہل زر کو علم کی کمی کا احساس نہیں ہوتا وہ کلیتہً اس حس شعور سے عاری ہوتے ہیں۔‘‘
اقدار انسان سے اپنا ئیت چھین لیتا ہے اوراس میں اجنبیت بھر دیتا ہے اوردولت انسان سے حمیت اورعزت نفس سلب کرلیتی ہے ، لیکن علم و مطالعہ بندے میں ایک سے ایک بڑھ کر ایک جوہر پیدا کرتا ہے، وسعتِ نظر، پختگئی فکر، اصابت رائے، جذبہ محبت، خودی،مردم شناسی اورخدا آشنائی کیا عمر بھرخرچ کرنے کو یہ دولت کم ہے؟***