محفوظ پنجاب کا خواب اورسیف سٹی اتھارٹی

  محفوظ پنجاب کا خواب اورسیف سٹی اتھارٹی
   محفوظ پنجاب کا خواب اورسیف سٹی اتھارٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد احسن یونس نے میرے سامنے 15پر کال ملائی۔ دوسری طرف سے آپریٹر کی آواز سے پہلے مختلف آپشنز کے بارے میں بتایا جانے لگا۔ جب فون کی فراہمی والا آپشن آیا تو محمد احسن یونس نے اسے دبا دیا۔ دوسری طرف سے آپریٹر کی آواز آئی، جی میں کیا خدمت کر سکتا ہوں، انہوں نے کہا مجھے اتفاق ہسپتال میں ایک مریض کے لئے بی پازیٹو خون کی ضرورت ہے۔ آپریٹر نے کہا مریض کا نام کیا ہے اسے بتایا گیا تو اس نے کہا کسی ڈاکٹر سے بات کرائیں۔ محمد احسن یونس نے جواب دیا ڈاکٹر سے بات کرانے کی کیا ضرورت ہے، آپ مجھے بتائیں خون مل سکتا ہے یا نہیں۔ آپریٹر نے کہا ڈاکٹر سے معلومات لینا ضروری ہیں، آپریٹر کو بتایا گیا اس وقت ڈاکٹر دستیاب نہیں، جواب ملا جونہی ڈاکٹر صاحب آئیں دوبارہ کال ملائیں، بلڈ کا انتظام ہو جائے گا اور فون بند ہو گیا۔ محمد احسن یونس نے میری طرف دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں، کچھ سمجھ آئی۔ پھر انہوں نے بتایا یہ ہماری بہترین سروس ہے۔ اس کے ذریعے  روزانہ پنجاب میں ضرورت مند مریضوں کو خون فراہم کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ صرف وقت ضائع کرنے کے لئے کال کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس کال کی شکل میں آپ نے دیکھا، جن کا مریض ہسپتال میں داخل ہے انہیں ڈاکٹر سے فوری بات کرانے میں کیا دشواری ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر سے معلومات لینے کا مقصد ایک تو تصدیق کرنی ہوتی ہے کہ مریض واقعی ہسپتال میں داخل ہے۔ دوسرا اس کی عمر، عمومی صحت اور بلڈ گروپ کی تصدیق بھی درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا پولیس کے پچاس ہزار افسر و جوان اس سروس کے لئے رجسٹر ہو چکے ہیں جن کے بلڈ گروپ کی تفصیلات اور رابطہ نمبر سیف سٹی اتھارٹی کے پاس موجود ہیں، جنہیں پنجاب میں کسی بھی شہریا ہسپتال میں فوری خون کی فراہمی کے لئے بلا لیا جاتا ہے، اسی طرح رضاکارانہ خون دینے والوں کی بڑی تعداد بھی ہمارے ساتھ منسلک ہو گئی ہے جبکہ آئے روز اس  میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب ہم تعلیمی اداروں میں بھی یہ کمپین چلا رہے ہیں کہ نوجوان خون کی فراہمی کے لئے اپنے نام سیف سٹی اتھارٹی کی اس اہم اور انسانی جانوں کے لئے کی جانے والی سروس میں رجسٹر کرائیں۔ انہوں نے بتایا بہت سے ڈونرز تو ایسے ہیں جو بیس بیس سال سے خون کا عطیہ دے رہے ہیں اور سینکڑوں جانیں بچا چکے ہیں۔ پنجاب سیف سٹیزز لاہور کے قربان لائن میں واقع عالمی معیار کے دفتر میں جدید آلات، ٹیکنالوجی اور چاق و چوبند پولیس کے افسر و جوانوں نیز خواتین کی بڑی تعداد کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو پوری دلجمعی سے کام کر رہا ہے۔

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی پنجاب حکومت کا ایک بڑا محکمہ بن چکا ہے۔ اس کے تحت اب پنجاب کے تقریباً تمام بڑے شہر سیف سٹیز کی سہولتوں سے بہرہ مند ہو چکے ہیں۔ سیف سٹیز اتھارٹی کے ایم ڈی محمد احسن یونس ایک باصلاحیات اور باعمل افسر ہیں۔ وہ پولیس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد بھی رہ چکے ہیں۔ چند سال پہلے انہیں جب اس اہم ادارے کا سربراہ بنایا گیا تو سیف سٹی اتھارٹی کا دائرہ صرف لاہور تک محدود تھا۔ لاہور میں صرف مخصوص علاقے کور کئے گئے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو لاہور کو محفوظ بنانے پر توجہ دی۔ پورے لاہور میں سی سی فوٹیج کیمرے لگوائے گئے پھر جدید ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو بروئے کار لایا گیا۔ شہر میں ایمرجنسی بوتھ آویزاں کئے گئے۔ وہ بتاتے ہیں جب وزیراعلیٰ مریم نواز نے منصب سنبھالا تو انہوں نے خاص طو ر پریہ ٹاسک دیا کہ سیف سٹیزکی سہولتوں اور سروسز کا دائرہ پورے پنجاب تک بڑھایا جائے۔ انہوں نے خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے فوری مدد کو یقینی بنانے کا حکم بھی دیا۔ جس پر سیف سٹیز اتھارٹی کو صوبے پر محیط کر دیا گیا اور اب محفوظ پنجاب منصوبے کے تحت صوبے کے تمام بڑے شہر سیف سٹیز کے دائرے میں آ چکے ہیں۔ کچھ کا انتظام ہو چکا ہے، کچھ کا اگلے چند دنوں میں ہونے والا ہے تاہم ان کی ورکنگ شروع ہو چکی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا لاہور میں سیف سٹی اتھارٹی کی موثر حکمت عملی اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جرائم میں کمی آئی ہے۔ البتہ وہ نئی آبادیاں جو اس منصوبے کے بعد بنی ہیں، وہاں جرائم زیادہ ہیں کیونکہ جرائم پیشہ افراد سیف سٹی کے نظام سے باہر کی آبادیوں کا رخ کر چکے ہیں، تاہم بہت جلد توسیعی منصوبے کے ذریعے ان آبادیوں کو بھی نگرانی میں لے لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا سیف سٹی اتھارٹی کا کام مقامی پولیس کو وہ صوبے کے جس شہر کی بھی ہو کسی جرم کے حوالے سے بنیادی شواہد فراہم کرنا ہے۔ اب یہ پولیس کا کام ہے ان شواہد پر کتنی تیزی سے کام کرکے مجرموں تک پہنچتی ہے۔

محمد احسن یونس نے کہا کوئی معاشرہ اس وقت تک مکمل محفوظ نہیں ہ وسکتا جب تک اس کے افراد قانون کی مدد نہیں کرتے۔ بروقت اور درست اطلاع جرم کا کھوج لگانے اورملزموں کو گرفتار کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا سیف سٹی اتھارٹی کی نظر اب لاہور کے ہر حصے پر ہے۔ ہمارے کیمرے ہر مشکوک سرگرمی اورہر مشکوک شخص کو دیکھ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے نیچے بڑے ہال کی طرف توجہ دلائی جہاں بیسیوں پولیس کے جوان کمپیوٹر سکرینوں پر نظریں جمائے بیٹھے تھے اور کئی سوفٹ کی دیوار پر ایک بڑی سکرین لگی تھی جس پر پورا لاہور نظر آ رہا تھا۔ ہر سڑک اور ہر بازار کی گہماگہمی دکھائی دے رہی تھی۔ انہوں نے بتایا پنجاب کے ہر شہر کی سیف سٹی اتھارٹی میں یہی سہولتیں مہیا کر دی گئی ہیں۔ کسی زمانے میں محاورتاً کہتے تھے، جرم چھپ نہیں سکتا، اب اس میں عملی تعبیر آ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا اب ڈکیتی کرنے والے کہیں نہ کہیں کیمرے کی زد میں آجاتے ہیں۔ کیمرے گویا ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ پولیس اگر فوری توجہ دے گی تو کیس چند گھنٹوں میں ٹریس ہو جائے گا اور ملزم قانون کی گرفت میں ہوں گے، انہوں نے کہا وزیراعلیٰ مریم نواز کی بھرپور سرپرستی اور وسائل کی فراہمی کے باعث محفوظ اور پرامن پنجاب کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے اور سیف سٹیز اتھارٹی اسے یقینی بنانے کے لئے پر عزم ہے۔

مزید :

رائے -کالم -