جب کرم ہو گیا نعت ہونے لگی

ماہِ رمضان میں جہاں افطاریوں،نعت خوانی کی محافل اور دیگر بابرکت سرگرمیوں میں وقت گزرتا ہے، وہاں جب کوئی ایسی تقریب ہوتی ہے جس میں اہل ِ ادب کسی ایسی محفل کا حصہ بنتے ہیں جو اپنا دائمی نقش چھوڑ جاتی ہے تو یک گونہ خوشی ہوتی ہے۔ لاہور میں ایک ایسی ہی تقریب سجائی گئی،جس کی معطر آواز اب تک نہ صرف لاہور بلکہ ملک کے دیگر حصوں تک بھی سنائی دے رہی ہے، توقیر احمد شریفی اور عدیل برکی لاہور کی سماجی و ادبی زندگی کے دو ایسے کردار ہیں جہاں موجود ہوں دوستوں کی محفل سجا لیتے ہیں۔اس بار یہ محفل مختلف انداز سے سجائی گئی۔ توقیر احمد شریفی صاحب ِ طرز شاعر ہیں،اُن کے کئی شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، نظم، غزل تو کہتے ہی ہیں تاہم حمد و نعت کے شعبے میں بھی اُن کی ایک توانا اور منفرد آواز ہے۔لاہور کی ادبی محفلوں کا جزولاینفک ہیں۔ دوسری طرف عدیل برکی ہیں، شاعر تو ہیں ہی لیکن اُن کے اندر اللہ نے سُرتال کا جو ملکہ دیا ہے وہ انہیں ہر جگہ مقبول و محبوب بنا دیتا ہے۔ ماہِ رمضان سے پہلے انہوں نے لاہور میں ایک موسقی کی شام منعقد کی تھی جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ شام محمد رفیع کے گانوں پر مشتمل تھی اور عدیل برکی نے ایک ہی نشست میں محمد رفیع کے درجنوں گانے سنا کر سماں باندھ دیا تھا۔یہ اُس کا شوق تھا اور اس شوق کی بدولت وہ اپنے چاہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ بنا چکے ہیں اس بار عدیل برکی نے توقیر احمد شریفی کی ایک نعت ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا۔ نعت پڑھنا ایک بہت بڑا وصف ہے، پاکستان میں بہت عظیم اور سوز و گداز کی معراج تک پہنچنے والے نعت خواں موجود ہیں جو دنیا سے گذر گئے ہیں اُن کی آواز کا لحن آج بھی کانوں میں عشقِ نبیؐ کی میٹھی اور رسیلی آواز کا رس گھولتا ہے۔مجھے جب توقیر شریفی اور عدیل برکی کے اس مشترکہ پراجیکٹ کا علم ہوا تو دلچسپی بڑھ گئی۔سب سے بڑی دلچسپی تو اس نکتے میں تھی کہ دونوں نے کس نعت کا انتخاب کیا ہے، نعت تو ہوتی ہی باعث ِ برکت و رحمت ہے تاہم نعت کاغذ پر پڑھنا اور ہوتا ہے اور ترنم کے ساتھ سنانا ایک دوسرا عمل ہے۔ایسی نعتیں جو ترنم کے ساتھ پڑھی جا سکیں،بہت لوازمات مانگتی ہیں اُن کی بحر،ردیف ِ قافیہ اور لفظوں کا انتخاب دوسرا ہوتا ہے۔اتفاق سے مجھے توقیر شریفی کا فون آ گیا،میں نے اُن سے کہا مجھے وہ نعت تو بھیجیں جو عدیل برکی نے ریکارڈ کرانی ہے۔انہوں نے کہا میں نعت تو بھیج دیتا ہوں لیکن اُس سے پہلے میں چاہوں گا آپ کو خود پڑھ کے سناؤں،تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے،میرے حصے میں عشقِ نبیؐ کے طفیل یہ کیسی سعادت آئی ہے۔پھر انہوں نے نعت کا مطلع پڑھا۔ طویل بحر کی نعت کا مطلع سُن کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا یہ نعت کسی خاص کرم کے لمحے میں وارد ہوئی ہے۔
حسرت دِید میں، آپ کو سوچتے،آنکھ میری لگی،یا نبی یا نبی
اور پھر خواب میں، زخم ِ فرقت نے بھی، بس یہ آواز دی یا نبی یا نبی
جوں جوں تو قیر شریفی نعت پڑھتے گئے،مجھ پہ ایک وجدانی سحر طاری ہوتا گیا۔ہر شعر میں جذب و کیف کی ایک ایسی دنیا آباد تھی جو سننے والے کو عشق و مستی کے بحر بیکراں میں لے جاتی ہے،میں خاص طور پر یہ بات نوٹ کی کہ توقیر شریفی نے ایک مشکل بحر کو بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔صرف نبھایا ہی نہیں بلکہ معانی و مطالب کے ایس در وا کئے ہیں جو نعت گوئی کی صنف کو آگے بڑھانے کا باعث بن گئے ہیں۔انہوں نے جس سلیقے اور قرینے سے اپنی عقیدت کو لفظوں کا پیرایہ عطاء کیا ہے،و ہ اس نعت کو واقعی ایک بڑی اور شاہکار نعت میں ڈھالنے کا باعث بنا ہے۔ اُن کے ہر شعر میں عقیدت کے اظہار کے لئے جو ڈکشن استعمال ہوئی ہے وہ عصری نعت میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔ صرف یہی نہیں انہوں نے تشبیہ واستعارے، تراکیب و التزام کی جن نزاکتوں کو چھو کر اپنا اظہارِ بام عقیدت تک پہنچایا ہے،وہ نہ صرف حیرت کو جنم دیتا ہے بلکہ سننے والے کو اپنے اندر تک عشقِ نبیؐ کی حدت محسوس ہوتی ہے۔اب میں سوچ رہا تھا اتنی خوبصورت نعت کو عدیل برکی کیا اُس سطح پر جا کر پڑھ سکیں گے جس اعلیٰ سطح پر جا کر یہ نعت کہی گئی ہے۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے،شاعر اور نعت خواں میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو بڑی تخلیق کا سارا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے نعت خواں کئی شاعروں کو اپنی آواز اور انداز سے امر کر گئے ہیں۔ مجھے عدیل برکی نے بتایا وہ اس نعت پر بہت کام کر رہے ہیں۔ریاضت کا عمل جاری ہے۔اس کے ایک ایک شعر پر وہ پوری توجہ دے رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں یہ نعت ایسے پڑھیں کہ یا نبی یا نبی کی گونج چاروں طرف پھل جائے۔
یہ کام مکمل ہوا تو لاہور میں اس کی رونمائی کی تقریب رکھی گئی۔اہل ذوق اور اہل ادب اس محفل میں موجود تھے، یہ نعت جو عدیل برکی کی آواز میں ریکارڈ ہو چکی تھی،اُس کی سی ڈی وہاں شرکاء میں تقسیم کی گئی، پھر جب عدیل برکی نے یہ نعت وہاں پیش کی تو ہر طرف سبحان اللہ اور واہ واہ کی صدائیں گونجنے لگیں۔جتنی خوبصورت نعت ہے،اتنی خوبصورت دھن بنائی گئی۔ ایک طویل بحر کی نعت کو پورے ردھم کے ساتھ پڑھنا اور اُس کا زیرو بم برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا،مگر جس انداز سے عدیل برکی نے اس مشکل فن کو نبھایا اُس نے نہ صرف اُن کے اندر کے فنکار کی بے پایاں صلاحیتوں کو نمایاں کر دیا بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ہر فن مولا ہیں۔غزل،گیت،نغمہ، حمد اور نعت میں سب میں انہیں عبور حاصل ہے۔میرے نزدیک جب فن کا اس طرح امتزاج ہوتا ہے جیسا توقیر احمد شریفی اور عدیل برکی کا ہوا ہے، تو ایک بڑی تخلیق جنم لیتی ہے۔یہ دونوں میرے دوست اس حوالے سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہیں ایک بڑے کام کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ نبی کریمؐ پر صدیوں سے نعت لکھی جا رہی ہے اور تا ابد لکھی جاتی رہے گی۔اس کا کوئی کنارہ ہے اور نہ حدود ہیں،سیاہی ختم ہو گی نہ عشقِ محمدؐ کا جذبہ کم ہو گا۔یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے کہ اس سے ہر عہد کے لوگموں کو اپنی عقید تو محبت کے جذبوں کی تشکین کا موقع ملتا ہے۔آخر میں اسی نعت کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
میرا دِل تھا، مگر دِل مدینہ نہ تھا، مجھ کو مدحت کا یکسر قرینہ نہ تھا
میرے ٹوٹے قلم پر ہوا جب کرم نعت ہونے لگی یا نبی یا نبی
٭٭٭٭٭