فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 283
ماسٹرجی مالی پریشانیوں میں مبتلا تھے۔ ادھر فلمی صنعت کے حالات خراب تھے۔ ان باتوں نے ماسٹر جی کے حسّاس ذہن پر بہت اثر مرتّب کیا اور وہ دل برداشتہ ہو کر ایک حد تک گوشہ نشین ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان آ کر بہت کم فلموں کی موسیقی بنائی جن میں ’’بے قرار‘‘ بھی شامل ہے۔ نذیر اجمیری اور ایس گل نے مل کر یہ فلم بنائی تھی۔ اس کے ہیرو ایس گل اور ہیروئن راگنی تھیں۔ اس فلم کے سارے گانے ہٹ ہوئے تھے اور آج بھی ہر ایک کو یاد ہیں حالانکہ فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ اس کے مشہور گیت یہ ہیں۔
-1ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا(گلوکارہ منوّر سلطانہ)
-2الفت بھری نظر کے اشارے بدل گئے (گلوکارہ منوّرسلطانہ اور علی بخش ظہور)
-3 بے درد زمانے سے (گلوکارہ پکھراج پپو)
-4 کوئی جا کے ان سے (گلوکارہ منوّر سلطانہ)
-5 بھول نہ جانا او پردیسیا۔(گلوکارہ منوّر سلطانہ)
-6 دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا (گلوکارہ منوّر سلطانہ اور علی بخش ظہور)
یہ گیت آج بھی روز اوّل کی طرح تازہ اور خوب صورت لگتے ہیں حالانکہ ریکارڈنگ کا معیار اچھّا نہ تھا۔ نہ آوازیں اتنی اچھی تھیں۔ البتہ طفیل ہوشیارپوری کے گیت بہت اچھے تھے اور ماسٹر جی کا میوزک تو سبحان اللہ۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 282 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عطا اللہ ہاشمی کی فلم’’اکیلی ‘‘ ناکام ہوگئی مگر یہ گانے آج بھی زندہ ہیں۔
-1 آئے خوشی کے زمانے
-2 اک مورنی۔ چھائی گھٹا گھنگھورنی۔
انور کمال پاشا کی فلم ’’غلام‘‘ کیلئے ماسٹر جی نے موسیقی بنائی تھی۔ یہ فلم بھی کامیاب رہی تھی اور ماسٹر جی کی موسیقی بھی بہت اچھی تھی۔
اسی زمانے میں ایس فضلی نے جو پاکستان آگئے تھے ’’اندھی محبّت‘‘ کا آغاز کیا اور ماسٹر جی کو موسیقار کی ذمّہ داریاں سونپ دیں مگر یہ فلم مکّمل نہ ہوسکی۔ شوکت حسین رضوی کی فلم ’’گُلنار‘‘ کیلئے ماسٹر جی نے بہت اچھی دُھنیں بنائی تھیں۔ شاید اس لئے کہ فلم ’’خاندان‘‘ بعد ماسٹر جی اور نورجہاں دوسری بار یک جا ہوئے تھے ۔’’گلنار‘‘ کی موسیقی اب کلاسیکی شمار کی جاتی ہے اور نورجہاں نے بھی ماسٹر جی کی دُھنوں کا حق ادا کر دیاتھا۔ اب ذرا یہ گانے یاد کیجئے۔
-1 بچپن کی یادگارو، میں تم کو ڈھونڈتی ہوں۔ تم بھی مجھے پکارو
-2گلہ ہے آسماں والے
-3 وہ چل دیئے ہیں دل کو تسلّی دیئے بغیر
-4برباد ہے دل، ویراں ہے نظر
سیّد امتیاز علی تاج اس فلم کے مصنّف اور ہدایت کار تھے۔ سنتوش کمار اور نورجہاں مرکزی کرداروں میں تھے۔ شوکت تھانوی نے بھی اس فلم میں ایک کردار ادا کیا تھا۔ اس کے باوجود یہ فلم فلاپ ہوگئی۔
فضلی صاحب کی فلم لکھنوی صرف دو گانوں کی صدا بندی کے بعد رک گئی تھی اور ’’گلنار‘‘ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ ان حالات اور مالی پریشانیوں اور تفکّرات نے ماسٹر غلام حیدر کا دل توڑ دیا۔ انہوں نے ان خبروں کا بہت گہرا اثر لیا اور دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ وہ گوشہ نشین ہو گئے تھے یا پھر فلم سازوں نے ان کو بھلا دیا تھا۔ لتا نے بمبئی سے بار ہا خصوصی پیغام بھیج کر انہیں بمبئی بلانے کی کوشش کی۔ سچ تو یہ ہے کہ بمبئی کے دوسرے فلم ساز بھی ماسٹر جی کے لئے ترس رہے تھے مگر ان کی خودداری اور غیرت نے دوبارہ انڈیا جانا گوارا نہ کیا۔
’’گُلنار‘‘ کی نمائش کے تین ماہ بعد 9اور 10نومبر1954ء کی شب لاہور میں اس عظیم موسیقار کا انتقال ہو گیا۔ مقامی فلمی صنعت نے ان کی موت کا بہت سوگ منایا مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ دنیا سے مایوس اور محروم انسان کے طور پر رخصت ہوئے۔ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی طرح وہ بھی پاکستان آنے کے بعد خراب حالات کا شکار ہو گئے تھے اور ناقدرئ زمانہ کے شاکی تھے مگر جذبہ حب الوطنی میں دونوں سرشار تھے اور انہوں نے تقاضوں اور منتوّں کے باوجود دوبارہ بمبئی کا رخ نہیں کیا۔
یوں تو ماسٹر جی کی آخری فلم ’’گُلنار‘‘ تھی مگر ان کی موت کے بعد فلم’’خانہ بدوش‘‘ نمائش پذیر ہوئی۔ یہ فلم تقسیم ہند سے قبل لاہور میں شروع ہوئی تھی مگر قیام پاکستان کے سات سال بعد جیسے تیسے مکمل ہونے کے بعد ریلیز ہوئی اور بہت بُری طرح فلاپ ہوئی شکر ہے کہ ماسٹر جی ناکامی کا یہ آخری صدمہ سہنے کیلئے دنیا میں موجود نہیں تھے۔
ماسٹر غلام حیدر کا فلمی کیریئر بیس سالوں پر محیط ہے اور اس دوران میں انہوں نے دنیا سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ ان کے سدا بہار نغمے رہتی دنیا تک ان کی یاددلاتے رہیں گے۔ بمبئی سے پاکستان آنے والے دو فنکار ایسے ہیں جن کی جدائی کا غم بمئی کے فلم ساز اور موسیقاروں کو ایک عرصہ دراز تک رہا تھا۔ ان میں سے ایک نور جہاں تھیں اور دوسرے ماسٹر غلام حیدر۔
ماسٹر غلام حیدر کی دھنوں میں کلاسیکی راگ راگنیوں کی مٹھاس اور سُریلا پن تھا۔ انہوں نے اپنے نغموں میں ایرانی‘ عربی‘ مصری دُھنوں کی آمیزش بھی کی اور لاجواب نغمے پیش کئے۔ پنجاب کی موسیقی کا رنگ ان کے فن کی عمارت میں ستون کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان کی بنائی ہوئی جادو اثر دُھنیں واقعی سننے والوں پر جادو کر دیتی تھیں۔
ہم نے ماسٹر غلام حیدر کو چند بار ہی دیکھا ہے۔ یہ ہماری صحافت کا ابتدائی زمانہ تھا۔’’آفاق‘‘ میں فلمی صفحہ شائع ہونے لگا تھا اور ہماری نگار خانوں میں آمد و رفت بھی شروع ہو چکی تھی۔ فلم والوں سے مراسم ہو چکے تھے۔ ایس گل صاحب کی فلم ’’بے قرار‘‘ کے دنوں میں ہم ان کے مال روڈ کے پچھواڑے والی گلی کے دفتر میں جایا کرتے تھے۔ وہاں ہم نے ماسٹر غلام حیدر کو بھی دیکھا۔ وہ اچھّے ڈیل ڈول کے خاصے بارعب آدمی تھے۔ ان کی بھاری آواز میں دبدبہ تھا حالانکہ وہ خود بھی گانے گاتے رہے تھے، موزوں گلوکار دستیاب نہ ہونے کی صورت میں۔ انہوں نے اپنے چند گانے خود ہی گائے تھے اور وہ پسند بھی کئے گئے تھے۔
فلم ’’گُلنار‘‘ کی فلم بندی کے زمانے میں شاہ نور اسٹوڈیوز میں ہماری آمدورفت شروع ہو چکی تھی جہاں ساؤنڈ ٹرک میں بیٹھے ہوئے ماسٹر جی گانے ریکارڈ کرایا کرتے تھے۔ جس شخص نے مثالی حالات میں بے پناہ وسائل اور کئی سہولتوں کے ساتھ کام کیا ہو، اس کیلئے یہ بے سروسامانی یقیناً تکلیف کا باعث ہو گی۔
ماسٹر جی کے ہمراہ چار سازندے لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے۔ سعید ملک صاحب نے بتایا کہ ان چار میں لال محمد عرف بھائی لال۔ فتح علی خاں‘ ماسٹر سوہنی خاں اور ماسٹر منظور شامل تھے۔ ماسٹر منظور طبلہ بجانے کے ماہر تھے اور طبلے کی آواز سے موسیقی کے انوکھے انداز پیش کرنے پر قادر تھے۔ سوہنی خاں کلارنٹ بجانے کے ماہر تھے۔ بھائی لال باجا بجانے میں ایکسپرٹ تھے اور سوہنی خاں کا کلارنٹ بجانے میں کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ چاروں صحیح معنوں میں فن کار اور اپنے اپنے سازوں کے بادشاہ تھے۔ ماسٹر جی کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ کمرے میں بیٹھ جاتے اور ماسٹر منظور کو بھیرویں یا کوئی اور راگ چھیڑنے کیلئے کہتے۔ ماسٹر منظور بھیرویں کے راگوں میں طبلہ شروع کرتے تو رفتہ رفتہ دوسرے سازندے بھی مختلف انداز پیش کرنے میں یک جا ہو جاتے تھے۔ ماسٹر جی ان تمام کیفیتوں کو سنتے اور ان کا ذہن اپنے مطلب کے ٹکڑوں کو یک جا کرتا رہتا تھا۔ جب مختلف حصے ان کے ذہن میں سمو جاتے تو وہ انہیں خاموش ہونے کا اشارہ کرتے ۔ اور دھن بنانے بیٹھ جاتے تھے۔
سعید ملک صاحب کا بیان ہے کہ ماسٹر منظور کو طبلہ بجانے پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ طبلہ خود بھی گاتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ماسٹر جی پیانو پر بیٹھ کر دھن بناتے تھے۔ جب تک مُکھڑا تیار نہ ہو جاتا وہ اپنے ساتھی سازندوں کے ساتھ مختلف تجربات کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ وہ کبھی تو دُھن تیار کر کے بعد میں بول لکھواتے تھے اور کبھی بولوں کے مطابق دھن بناتے تھے۔ ان کا دستور یہ تھا کہ طرز بنانے کے بعد گلوکار یا گلوکارہ کے ساتھ بارہ یا پندرہ دن تک ریہرسل کرتے تھے اورجب تک گلوکاری اور سازوں کی سنگت سے مطمئن نہ ہوتے‘ ریہرسل جاری رہتی تھی۔ موسیقاروں میں یہ انداز صرف ماسٹر غلام حیدر اور خواجہ خورشید انور ہی کا تھا۔ یہ دونوں کچے پکے کام کے قائل نہیں تھے۔ بڑے بڑے گلوکار اور سازندے بھی ان کے سامنے دم نہیں مار سکتے تھے۔ ریہرسل سے مطمئن ہونے کے بعد ہی صدا بندی کا مرحلہ آتا تھا۔ ماسٹر جی کے یہ چار سازندے ہمیشہ ان کے ہمراہ رہے۔ وہ بمبئی گئے تو یہ چاروں ان کے ساتھ تھے۔ لاہور میں بھی وہ ماسٹر جی کے ہمراہ تھے۔ ماسٹر جی کے گانوں میں طبلہ‘ ڈھولک اور گھڑا ضرور شامل ہوتے تھے۔ وہ پرانے کلاسیکی میوزک کے قائل تھے اور راگ راگنیوں سے کبھی باہر نہیں نکلتے تھے۔ ایسے مایہ ناز تخلیق کار بار بار جنم نہیں لیتے۔ افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی۔(جاری ہے )
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 284 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں