سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 6
طبقات اکبری کا مصنف لکھتا ہے
(امیر ناصرالدین) ترک نژاد غلام اور الپتگین کا غلام ہے اور الپتگین امیر منصور بن نوح سمانی کا غلام ہے۔ وہ منصور بن نوح کی خدمت میں امیر الامراءکے مرتبے کو پہنچا۔ وہ (ناصرلدین)امیر منصور کی حکومت کے زمانے میں ابواسحاق بن الپتگین کے ہمراہ بخارا آیا تھا اور اس کی سرکردگی میں وکالت کے مرتبے پر پہنچا۔ جب امیر منصور کی نیابت میں ابو اسحاق کو غزنین کی حکومت ملی‘تو اس نے حکومت کا نظام امیر ناصرالدین کے سپرد کردیا۔ اس کے انتظام نے حکومت میں استقلال پیدا کردیا۔ جب ابواسحاق کا انتقال ہوگیا اور اس کا کوئی وارث نہ رہا تو سپاہ و رعایا نے ناصرالدین کی حکومت سے اتفاق ظاہر کیا اور اس کی اطاعت پر آمادہ ہوگئے وہ اظہارِ قوت کے خیال سے حکومت کے کام میں مشغول ہوگیا اور ملک گیری کا منصوبہ بنایا۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 5 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
367ھ(977-78ئ) میں طغان‘ جو ولایتِ بست کا حکمران تھا اور پایتور نے بست پر قبضہ کرکے طغان کو وہاں سے نکال دیا تھا‘ امیر ناصرالدین کے پاس آیا اور اس نے مدد چاہی۔ امیر ناصرلدین نے فوج کشی کرکے بست کو پایتور کے قبضے سے نکال کر طغان کے حوالے کردیا اور طغان نے بہت سی شرئط کو قبول کرکے عہد کیا کہ وہ اس کی اطاعت سے روگردانی نہیں کرے گا۔ جب اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور عہد شکنی کی تو امیر ناصرالدین نے بست کو اس کے قبضے سے نکال لیا اور اس پر اپنا نمائندہ مقرر کردیا چونکہ قصدار کا قلعہ اس کی حکومت کے قریب تھا اور وہاں کا حاکم بہت دلیر تھا‘لٰہذا امیر ناصرالدین نے اس کی غفلت میں‘اس کو گرفتار کرلیا اور آخرکار اپنے ملازموں میں داخل کرکے قصدار اس کی جاگیر میں دے دیا۔
امیر ناصرالدین شاہانہ عزم کے ساتھ غزنی اور جہاد پر کمر بستہ ہوگیا۔ وہ ہندوستان پر حملے کرنے لگا وہاں سے غلام اور مالِ غنیمت لاتا تھا۔ جس جگہ کو فتح کرتا‘وہاںمسجد بنواتا تھا اور راجا جے پال کے ملک کی خرابی میں کہ جو اس زمانے میں ہندوستان کا کاص راجا تھا‘کوشش کرتا تھا۔ راجا جے پال اس خرابی اور غارت گری سے کہ جو وہ اس کے ملک میں کرتا تھا‘ تنگ آگیا۔ راجا نے ایک منظّم لشکر اور بڑے بڑے ہاتھیوں کو لے کر امیر ناصرالدین پر حملہ کردیا‘وہ بھی نہایت مستقل مزاجی سے آگے بڑھا اور اپنے ملک کی سرحد پر جے پال کا مقابلہ کیا‘بڑی سخت ٰخوں ریزی ہوئی۔ امیر محمودغزنوی بن ناصرالدین نے اس جنگ میں داد ش،شجاعت و مردانگی دی۔ کئی روز تک دونوں لشکروں میں مقابلہ و مقاتلہ ہوتا رہا۔
کہتے ہیں کہ اس نواح میں ایک چشمہ تھا۔ اگر اتفاق سے اس چشمے میں گندگی یا نجاست پڑ جاتی‘تو آندھی‘برف اور بارش بڑی شدت سے ہوتی۔ امیر محمودغزنوی نے حکم دیا کہ اس چشمے میں نجاست ڈال دی جائے۔ پس اس میں ہوا اور برف کی شدت ہوگئی جے پال کا لشکر کہ جو سردی کا عادی نہ تھا‘ عاجز آگیا۔ نہت سے گھوڑے اور جانور مرگئے۔
جے پال نے پریشان ہوکر صلح کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یہ طے پایا کہ وہ پچاس ہاتھی اور کثیر رقم ناصرالدین کو بھیجے۔ وہ اپنے چند معتبر آدمیوں کو امیر کے پاس بطور یرغمال چھوڑ کر گیا اور امیر ناصرالدین کے چند معتبر آدمیوں کو مال اور ہاتھی سپرد کرنے کی غرض سے ہمراہ لے گیا تھا کہ مال ادا کرے۔ جب وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو اس نے عہد شکنی کی اور امیر ناصرالدین کے آدمیوں کو قید کرلیا۔ اس خبر کے سنتے ہی امیر ناصرالدین نے بدلہ لینے کے ارادے سے لشکر کشی کردی۔ جے پال نے بھی ہندوستان کے راجاﺅں سے مدد مانگی اور تقریباً ایک لاکھ سوار اور بہت سے ہاتھی جمع کرکے مقابلے کے لیئے آیا۔ لمغان کے نواح میں دونوں فریقوں میں جنگ ہوئی ۔ امیر ناصرالدین کو فتح و نصرت حاصل ہوئی۔ بہت سا مالِِ غنیمت‘غلام‘ہاتھی اور رقم ہاتھ آئی۔ جے پال بھاگ کر ہندوستان چلا گیا اور لمغانات کے علاقے پر امیر ناصرالدین کا قبصہ ہوگیا اور اس ملک میں اس کا سکہ رائج ہوگیا۔ اس کے بعد وہ امیر نوح بن منصور کی مدد سے آگے بڑھا۔ خراسان و ماورالنہر میں فتوحات حاصل کیں۔ ماہِ شعبان383اگست997ءمیں امیر ناصرالدین اس دارفانی سے رخصت ہوگیا لیکن اس کی حکومت کی مدت بیس سال رہی۔
ترک غلام
منہاج الراج کے مطابق سبکتگین ترک نسل کا ایک غلام تھا۔ ایک تاجر نصر حاجی نے اسے اس وقت خریدا‘ جب وہ ابھی محض ایک لڑکا تھا۔ وہ اسے ترکستان سے بخارا لایا جہاں اس نے اسے الپتگین کے پاس فروخت کردیا۔ سبکتگین نے الپتگین کے دیگر غلاموں کے ہمراہ تعلیم حاصل کی اور ہھتیاروں کے استعمال کے بارے میں پڑھا۔ وہ پہلے پہل اس بادشاہ کی ملازمت میں نجی گھڑ سوار تھا نہایت طاقتور اور پھرتیلا ہونے کے باعث جنگل میں اس کے لئے شکار کیا کرتا تھا۔ اوائل عمری میں ہی اس پر مستقبل کی عظمت کی جھلک نظر آرہی تھی اس کا سرپرست اس کی صلاحیتوں کو بہت سراہتا اور بہت سی عسکری مہمات کے سلسلہ میں اس پر بہت اعتباد کرتا تھا۔ اس نے جلدی ہی اسے فوج میں اہم عہدوں پر فائز کردیا آخرکار غزنی میں شاہی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے حمایتوں کو امیر الامراءاور وکیل المطلق کے خطاب سے نوازا۔ سبکتگین نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ناصرالدین کا لقب اختیار کیا وہ خود کو امیر کہتا تھا۔
قندھار کو مطیع کرنے اور اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے بعد اس نے زابولستان کے دارالخلافہ بست کے قلعہ پر قبضہ پر کرلیا۔ وہاں اس کے ملاقات مشہور زمانہ ابو لفتح سے ہوئی‘جنہیں ان کے علم و فضل اور ذہانت کے باعث اس نے اپنا مصاحب جاص بنالیا۔ اس نے ہندوستان کے بت پرستوں کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا‘ جو ابھی تک صرف پرہما اور مہاتما بدھ کی پرستش سے واقف تھے۔ اس وقت پنجاب پر ہسپال کے بیٹے جے پال کی حکومت تھی‘جس کا علاقہ ایک طرف سے دریائے سندھ سے لگمان اور دوسرے جانب کشمیر سے ملتان تک پھیلا ہوا تھا۔ 977ءمیں ایک بہت بڑی فوج کے ہمراہ مشرق کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے اس نے بہت سے قلعے تسخیر کیے مسجدیں تعبیر کرانے کا حکم دیا اور بہت سے مال غنیمت کے ہمراہ غزنی کی طرف لوٹا۔
جے پال‘ جو اس وقت بھٹنڈا کے قلعہ میں رہائش پذیر تھا‘ اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے پے در پے حملوں نے ملک کے امن و امان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لٰہذا اس نے ایک بہت بڑی فوج تیار کی اور بے شمار ہاتھیوں کو اس مقصد کے تحت جمع کیا کہ وہ ان کے ساتھ ان کی اپنی سرزمین پر حملہ کردے گا۔ اس نے سندھ کو پار کیا اور لغمان کی طرف پیش قدمی کی‘جہاں اس کی مڈبھیڑ سبکتگین کے ساتھ ہوئی۔ جب جھڑپیں شروع ہوئیں تو سبکتگین کے بیٹے محمودغزنوی نے جو اس وقت محض ایک لڑکا تھا‘ بہادر اور سپاہیانہ کارناموں کے جوہر دکھائے۔ رات کے وقت زبردست طوفان باد و باراں اور ژلہ باری شروع ہو جانے کے باعث ہر طرف خوف و ہراس اور تباہی پھیل گئی۔ لاہور کے راجہ کے دستے بری طرح متاثر ہوئے اس کے بے شمار مویشی ہلاک ہوگئے۔ راجہ نے اپنی فوج منتشر ہوتے دیکھا تو اگلے روز صلح امن کرلی۔ سبکتگین ہندو راجہ کی درخواست قبول کرنے پر رضا مند ہوگیا تھا۔ نوجوان محمودغزنوی جو ایک پرجوش جنگجو تھا‘ اس کے اثر و رسوخ نے اسے یہ شرائط ماننے سے باز رکھا۔ جے پال نے بادشاہ کے پاس اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے دیگر سفیر روانہ کیے کہ بادشاہ سلامت!راجپوت سپاہیوں کی یہ رسم تھی کہ جب انہیں آخری حد تک پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا تو وہ اپنے بیوی بچوں کو ہلاک کرنے کے لئے اپنے گھروں اور جائیداد کو نذر آتش کر دیتے تھے اور مایوسی کی حالت میں اپنے بال بکھیر کر دشمن کے اندر گھس کر اپنے آپ کو انتقام کے سرخ طوفان میں غرق کر دیتے تھے۔
سبکتگین جو راجہ کو مایوسی کی حالت میں تسخیر نہیں کرنا جاہتا تھا‘ وہ شرائط ماننے پر تیار ہوگیا۔ راجہ امن کی قیمت کے طور پر دس لاکھ درہم اور پچاس ہاتھی دینے پر رضا مند ہوگیا۔ راجہ نے پوری رقم کو اپنے پڑاﺅ میں رہتے ہوئے ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہوئے اپنے ساتھ چند بااعتماد شخصیات کو لیا تاکہ لاہور سے باقی ماندہ رقم وصول کی جاسکے۔ جبکہ یرغمالیوں کو حفاظت کے پیش نظر سبکتگین کے پاس رہنے دیا۔ تاہم راجہ نے دارالخلافہ میں اپنے آپ کو محفوظ پاکر اپنے پرہمن مشیروں کی ہدایت پر عمل کیا اور معاہدے سے منحرف ہوگیا لیکن اس نے مسلمان افسروں کو قید میں ڈال دیا۔ سبکتگین جو اس وقت غزنی پہنچ چکا تھا‘ اس نے جب یہ سنا تو سخت غضبناک ہوگیا۔ اس نے اسی وقت ہندو راجہ کی طرف سے کی گئی ہتک کا بدلہ لینے کے لیے بہت بڑی فوج کے ہمراہ لغمان کی طرف پیش قدمی کردی۔
جے پال نے آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا۔ اس نے ہمسایہ ملکوں دہلی‘اجمیر‘ کالیسنجر اور قنوج کے بادشاہوں سے اتحاد کرلیا اور متحدہ فوج جو 10ہزار گھڑ سواروں اور بے شمار پیادہ فوج پر مشتمل تھی اور ہندو بہادری کا نشان تھی‘اس نے مسلمان حملہ آوروں کو پیچھے دھکیلنے کے لئے لغمان کی سرحدوں پر اپنے آپ کو ترتیب دے دیا۔ سبکتگین نے ایک قریبی پہاڑی پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستانی لشکر کا جائزہ لیا۔ جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سمندر کی طرح لامتناہی تھا۔ اس نے اپنے سرداروں کے مستقبل کی شان و شوکت کے بارے میں حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان سے شجاعت کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی ہر ایک کو فرداً فرداً احکامات دیے اور تعداد میں کم اپنے سپاہیوں کو پانچ پانچ سو کے دستوں میں تقسیم کردیا پھر انہیں حکم دیا کہ وہ ہندو فوج کے کمزور مقام پر پے در پے حملے کریں۔ اس نقل و حرکت سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر دشمن کی منتشر صفوں میں تازہ دم دستے مستقل طور پر روانہ کیے جائیں تو ہندوﺅں کے گُڑ سوار دستوں میں ابتری اور دہشت پھیل سکتی ہے۔ سبکتگین نے اس ابتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عام حملے کا حکم دے دیا اور ہندو ہر مقام پر ہزیمت اٹھا کر بھاگ نکلے۔ مسلمان فوجی دستوں نے نیلاب کے کناروں تک ان کا تعاقب کیا۔ اس فاتح نے دریائے سندھ کے مغربی علاقوں سے بھاری تاوان وصول کیا اور لغمان و پشاور کو اپنی سلطنت کی مشرقی سرحد پنانے کے بعد اس نے دس ہزار گھڑ سواروں کے ہمراہ اپنے ایک افسر کو مفتوحِ ملک کا نظم و نسق سونپا اور غزنی کی طرف لوٹ گیا۔
سبکتگین باقی ماندہ زندگی میں اپنی سلطنت کے شمال مغرب میں عسکری مہمات میں مصروف رہا۔ وہ اگست 997ءمیں 56سال کی عمر میں اور 20سال حکومت کرنے کے بعد بلخ کے نزدیک تیمروز میں انتقال کرگیا۔ اس کی میت کو دفن کرنے لیئے غزنی لے جایا گیا۔
سبکتگین ایک ایسا بادشاہ تھا‘ جس میں غیر معمولی شجاعت اور ہوش مندی کے علاوہ مساوات اور اعتدال پسندی بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس کا وزیر ابوالعباس فضل تھا جو حکومت کے معاملات کو بڑی ذہانت اور قابلیت سے نپٹاتا تھا۔
ماثرالملک کے مصنف کے مطابق سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی نے اپنے باغ میں نہایت عالیشان گھر تعمیر کروایا اور ایک پُر تکلّف دعوت میں اپنے والد کو مدعو کیا۔ اس عمارت کی خوبصورتی‘ذوق اور کمال فن نے نوجوان شہزادے کو اس بات پر اکسایا کہ وہ اس بارے میں اپنے والد کی رائے حاصل کرے لیکن سبکتگین نے نہایت مایوسی کی حالت میں اپنے بیٹے سے کہا کہ اس نے اسے محض ایک کھلونے کی مانند دیکھا ہے‘ جسے اس کی رعایا میں سے دولت کے ذریعہ سے کوئی بھی تعمیر کر سکتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک شہزادے کا کام یہ ہے کہ وہ شہرت کی ایسی دیرپا یادگاریں تعمیر کرے جو شان و شوکت کے ستونوں کی طرح ہمیشہ قائم رہیں۔ اچھے کارناموں کی طرح‘جو تقلید کے قابل ہوں اور اولاد ان پر سبقت لے جانے میں دشواری محسوس کرے۔ سمرقند کے ساعر نظام اورازی نے اس بارے میں مشاہدہ کیا ہے کہ محمودغزنوی کے تعمیر کردہ سبھی عالیشان محلوں میں کسی کا ایک پتھر بھی باقی نہیں بچا لیکن اس کی شہرت کی عمارت ابھی تک وقت پر حاوی ہے اور اس کی عظمت کی دیرپا یادگار باقی ہے۔