کھلاڑی نہیں ٹیم جیتتی ہے مگر ٹیم ہے کہاں؟

  کھلاڑی نہیں ٹیم جیتتی ہے مگر ٹیم ہے کہاں؟
  کھلاڑی نہیں ٹیم جیتتی ہے مگر ٹیم ہے کہاں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کو ہرا کر اپ سیٹ کر دیا، کریڈٹ پاکستان کے سابق کپتان یونس خان کو مل رہا ہے جو افغانستان کے کوچ ہیں۔ بلاشبہ اُن کی کوچنگ نظر آئی ہے وہ افغان کھلاڑیوں کو کتنی محنت کراتے ہیں،کتنی ٹریننگ دیتے ہیں، کسی طرح فیلڈنگ، باؤلنگ اور بیٹنگ کے پٹس دیتے ہیں اس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں، مگر صاحبو! صرف یہی ایک بات نہیں جو افغانستان کو اس سطح پر لے آئی ہے کہ جہاں وہ بڑی ٹیموں کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔اصولی بات یہ ہے کہ تمام کھلاڑی ملک کے لئے کھیلتے ہیں، متحد ہیں اور فتح کے لئے جان لڑا دیتے ہیں۔میں کل جاوید ملک کو کہہ رہا تھا کہ آپ نے 97 انٹرنیشنل میچز میں میچ ریفری کا فریضہ سرانجام دیا ہے، آخر کیا خوبی ہے جو کسی ٹیم کی کامیابی کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے کہا جو ٹیم،ٹیم ورک کے ساتھ کھیلتی ہے، کھلاڑی اپنے انفرادی کھیل کی بجائے ٹیم کو جتوانے پر توجہ دیتے ہیں وہ جیت جاتی ہے۔ میں نے کہا جن باتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، مجھے تو اُن میں سے کوئی ایک بات بھی موجودہ پاکستانی ٹیم میں نظر نہیں آتی، جذبے اور اتحاد سے محروم یہ ٹیم ورلڈکپ جیسے بڑے مقابلے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے اس ٹیم کی کسی بھی میچ میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی، کمزور کپتانی اور کھلاڑیوں کی لاپرواہی صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ون ڈے میچ کو ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلتے ہوئے بابر اعظم کو کوئی خیال آتا ہے اور نہ رضوان کو خبر ہوتی ہے، مقابلے کے لئے جان لڑا دینا ہماری ٹیم میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک ایسے کلب کی ٹیم کھیل رہی ہے جس کی نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ سارا الزام کرکٹ بورڈ کو دیا جاتا ہے یہ کھلاڑی جو قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور جن کے اندر ملک کے لئے کھیلنے کا جذبہ ہی مفقود ہو چکا ہے انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ اِس میں کوئی شک نہیں محسن نقوی کو پی سی سی کا چیئرمین بنا کر ایک بڑا فیصلہ کیا گیا اس لئے کہ اُن کے پاس اُس وقت پنجاب کی نگران وزارتِ اعلیٰ تھی اور بعدازاں انہیں ملک کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا کہ ایک کل وقتی چیئرمین پی سی بی بنانے کی بجائے ایک وزیر کو اس کا چارج دیا گیا،کل رانا ثناء اللہ کہہ رہے تھے سارا زور سٹیڈیم بنانے پر دیا جاتا رہا ہے، ٹیم بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،حالانکہ کھیلتا ٹیم نے ہوتا ہے، سٹیڈیم نے نہیں، کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں گروپ بندی ایک بڑی حقیقت بن چکی ہے۔ کھلاڑیوں میں یہ منفی جذبہ اس حد تک سرایت کر گیا ہے کہ پاکستان کی اُن کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ پی سی بی کے حکام بھی اس کے ذمہ دار ہیں، جس تیزی کے ساتھ یہاں کپتان بدلتے رہے۔اُس تیزی کے ساتھ تو لوگ کپڑے نہیں بدلتے، جس ٹیم میں چار پانچ کپتان بیکوقت موجود ہوں وہ یکجہتی کیسے پیدا کر سکتی ہے۔بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، رضوان اور نجانے کون کون کپتانی سے ہٹانے کا زخم لئے موجود رہتے ہیں، وہ کیسے چاہیں گے کوئی دوسرا کپتان کامیاب ہو جائے۔

سب حیران ہیں کہ پاکستان ٹیم اچھا کھیلتے کھیلتے یکدم برا کیوں کھیلنے لگتی ہے۔بھارت کے خلاف اوپننگ پارٹنر شپ بھی ٹھیک تھی اور ڈیڑھ سو رنز تک وکٹیں بھی کافی پڑی تھیں اِس کے بعد ایسی جھڑی لگی کہ وکٹیں پت جھڑ کے پتوں کی طرح گرتی چلی گئیں۔ یہ غیر ذمہ داران بیٹنگ تھی یا ٹیم میں موجود گروپ بندی کا شاخسانہ جو اچھے بھلے میچ کو آسمان سے گرا کر زمین پر پٹخ دیتی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی اچھا باؤلر ہے،مگر جس قسم کی آج کل اُس کی ایوریج ہے، کیا اسے اچھا باؤلر کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی رہ چکا ہے اور ظاہر ہے ہٹائے جانے پر خوش بھی نہیں۔ بابر اعظم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کے بعد کی پرفارمنس دیکھ لیں کیا ہے، یا تو وہ وکٹ پر کھڑے ہو کر سلو رن ریٹ کے ذریعے وقت اور اوور ضائع کرتا ہے یا پھر جلد آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ جاتا ہے۔ محمد رضوان کپتان ضرور ہے، مگر گراؤنڈ میں اُس کی باڈی لینگوئج ایک کمانڈر کی نہیں، بلکہ ایک بے بس سپاہی کی ہوتی ہے، ایک مضبوط اور ٹیم پر گرفت رکھنے والے کپتان کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کی کرکٹ میں مضبوط کپتانوں کے ادوار ہمیشہ فتوحات لے آئے۔ اب کپتان کو خود معلوم نہیں ہوتا وہ کتنے عرصے کے لئے کپتان ہے اور کپتان کے بعد ٹیم میں جگہ بھی ملے گی یا نہیں اِس لئے وہ کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بڑے نام والے کھلاڑیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، جس ٹیم میں شمولیت کے لئے صرف اہلیت ہی معیار نہ ہو بلکہ سفارش اور کوٹہ سسٹم بھی کام کرتا ہو،اس ٹیم میں ڈسپلن،اتحاد اور جوش و جذبہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا حال یہی ہے۔

کرکٹ میں پیسہ بہت ہے، نہ صرف کرکٹ میں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی پیسے کی فراوانی ہے،بڑے بڑے سرکاری افسر بھی یہ کوشش کرتے ہیں کسی نہ کسی طرح پی سی بی میں ڈیپوٹیشن پر چلے جائیں جہاں تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں کہ دو چار سال کی ملازمت ہی سارے دلدر دور کر دیتی ہے۔کھلاڑی یہ سب دیکھتے ہیں تو اُن کے اندر ایک لالچ کی فراواں ہوتی ہے۔ اسی کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑی پی سی بی پر دباؤ ڈال چکے ہیں کہ وہ بورڈ کو مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے انہیں حصہ دے۔ جب لالچ اور طمع کی مدت اس قدر ہو تو ساری توجہ اس کی طرف مرکوز رہتی ہے۔یہ ہم عوام ہیں جو سمجھتے ہیں معاملہ ملک کا ہے۔پاکستان کی عزت وقار میں اضافے کا ہے اس لئے سب کھلاڑی ہر قسم کے خیالات سے بے نیاز ہو کر پاکستان کی خاطر کھیلیں گے،پوری قوم میچ والے دن ایک ایک بال پر دعائیں مانگ  رہی ہوتی ہے، مگر یہ کھلاڑی حد درجہ غیر ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے کبھی آؤٹ ہو جاتے ہیں،کبھی کیچ چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی بری باؤلنگ کرا کے چوکے چھکے لگواتے ہیں اور ہر چھکے پر پاکستانی تماشائی اپنا خون جلا رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں خفیہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک موجود ہے جو سیاسی مخالفین کی ہر حرکت پر نظر رکھتی ہیں، کیا وہ اس بات کا کھوج نہیں لگا سکتیں کہ ٹیم میں کتنی گروپ بندی ہے۔ یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ہمارے کھلاڑی اناڑی ہیں اِس لئے ہار جاتے ہیں یہ سب اچھے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں البتہ ان کی کارکردگی عین وقت پر کیوں جواب دے جاتی ہے، یہ اہم سوال ضرور ہے پرانا مقولہ ہے کہ جو ہارنے کے لئے میدان میں اُترتے ہیں وہ کبھی جیت نہیں سکتے، ہمارے کھلاڑی کچھ ایسے ہی بن چکے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -