اسلامی شان و شوکت کا عظیم اجتماع۔۔۔۔ جمعتہ الوداع!

اسلامی شان و شوکت کا عظیم اجتماع۔۔۔۔ جمعتہ الوداع!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                                                             ماہِ رمضان کے آخری جمعہ کو جمعتہ الوداع کہتے ہیں۔ الوداع کے لغوی معنی رخصت کرنے کے ہیں چونکہ یہ آخری جمعتہ المبارک ماہ صیام کو الوداع کہتا ہے اس لئے اس کو جمعتہ الوداع کہتے ہیں۔جمعتہ الوداع اسلامی شان و شوکت کا ایک عظیم اجتماع عام ہے ،یہ اپنے اندر بے پناہ روحانی اور نورانی کیفیتیں رکھتا ہے۔ یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب مقدس ماہ کے گنتی کے ایام اور اس کے وداع ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے، جس میں مسلمانوں کے لئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ آج اس ماہ منور کا آخری جمعہ ہے جو ہمیں اس ماہ مقدس سے جدا کر رہا ہے، جس نے ہمیں ہر گھڑی اللہ کی عطاءکردہ بے شمار رحمتوں،نعمتوں سے ہر لمحہ نوازا، اب چونکہ یہ ماہ مقدس ہم سے رخصت ہونے کو ہے اور یہ اس کا آخری جمعہ ہے تو اسی لئے ہم اسے جمعتہ الوداع کہتے ہیں۔

 رمضان کے اس جمعہ کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پورے عالم اسلام کے مسلمان جمعتہ الوداع کو بڑے ذوق عبادت میں پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ساتھ ساتھ ان کے دل بھی بوجھل اور غمگین ہوتے ہیں کہ نہ جانے اگلے سال ہمارے مقدر میں پھر یہ مبارک لمحات آئیں گے بھی یا نہیں۔ آج جمعتہ الوداع ہے آج اس یوم سعید کو پوری دنیا کے مسلمان قبلہ او_¿ل مسجد اقصی کی آزادی کے لئے یوم القدس کے طور پر بھی مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے ہر ممکن جد و جہد کریں گے۔ بیت المقدس ایک مقدس شہر یروشیلم میں قائم اس عظیم عمارت کا نام ہے جو نہ صرف مسلمانوں،بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے لئے بھی مقدس اور محترم مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا پہلا قبلہ اول ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کے پندرھویں پارہ میں ہے۔اسی سرزمین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی، بہت سے انبیاءکرام یہاں تشریف لائے، اسی وجہ سے اس کو انبیاءکی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ آئیے سال کے اس سب سے عظیم دن ہم سب مل کر قبلہ اول کی آزادی کے لئے خصوصی دعائیں کریں۔ جمعتہ المبارک کی عظمت و رفعت محتاج بیان نہیں جو قدر و منزلت اسے عطا ہوئی ہے کسی اور دن کو وہ نصیب نہیں ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے نبی پاک نے فرمایا سب سے بہتر دن جس پر سورج طلوع ہو، جمعہ کا دن ہے۔ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن باہر آنے کا حکم ہوا اور یہی وہ دن ہے، جس میں قیامت قائم ہو گی۔

 زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو عروبہ کہا جاتا تھا۔حضور اکرم کی بعثت سے 560 برس قبل جناب کعب بن لوئی نے اس دن کا نام جمعہ رکھا کہ اس زمانے میں قریش ایک مقام پر جمع ہوتے اور کعب خطبہ دیا کرتے۔ اکثر جناب کعب آسمانی کتابوں کے حوالے سے نبی آخر الزماں کے تشریف لانے اور آپ کی خوبیوں اور محاسن کابیان کرتے تھے۔ خصوصاً یہ ثابت کرتے تھے کہ اس عظیم انسان کی ولادت بنو اسماعیل کے قبیلہ قریش ہی میں ہو گی۔ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے کہ اپنی نسل کو وصیت کرتے رہنا کہ تم میں جو بھی اس نبی آخر الزماں کا زمانہ پائے وہ ان پر ایمان لے آئے زمانہءجاہلیت میں اگرچہ جمعہ کا لفظ بولاجاتا تھا لیکن یہ لفظ عرب میں مشہور نہ تھا صرف قریش کے درمیان اس کا استعمال تھا۔ حضور اکرم کی جلوہ گری اور نزول قرآن کے بعد اس کو اتنی شہرت ملی کہ اس کے مقابلے میں عروبہ کا لفظ لغت عرب سے ختم ہو گیا اور اب دنیا صرف اس کو جمعہ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ اس دن کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا؟تو آپ نے فرمایا اس لئے کہ اس میں تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی خمیر کی گئی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اسی دن گرفت ہو گی اور اسی دن جمعہ کی آخری تین ساعتوں میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں اللہ سے جو دعا مانگی جائے ، وہ قبول ہو گی۔جمعتہ المبارک کے دن کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں دوسرے دنوں کے مقابلے میں بطور خاص اس کا ذکر کیا گیا ہے اور جب نماز جمعہ کے لئے بلایا جائے تو جمعہ کے دن اللہ کے ذکر کی طرف فوراً تیار ہو کر جانے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ترجمہ! اے ایمان والو!جب جمعہ کے دن (نمازِ جمعہ)کے لئے اذان دی جائے تو فوراً تیاری کرو اللہ کے ذکر کی طرف اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اگر تم جانتے ہو اس دن کی فضیلت نبی پاک نے بھی بتائی۔ حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذرؓ سے روایت ہے آقائے دوجہاں نے فرمایا بے شک جمعہ کا دن سید الایام اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے زیادہ عظمت والا ہے ۔

 جمعتہ المبارک کو قبولیت دعا کی ساعت کب آتی ہے اِس بارے چند روایات ملاحظہ فرمائیں حضرت ابو بردہ بن ابی موسیٰ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور اکرم نے جمعہ کی مخصوص ساعت کے متعلق فرمایا کہ وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے کے وقت سے نماز ختم ہونے تک ہے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے سرکار نے فرمایا کہ اس گھڑی کو تلاش کرو جس کی امید جمعہ کے دن ہوتی ہے، وہ عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب کے درمیان ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی پاک نے فرمایا کہ رمضان کے جمعہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے خود ماہِ رمضان کی باقی تمام مہینوں پر فضیلت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کابیان ہے نبی پاک نے فرمایا جمعہ مساکین کا حج ہے یعنی مسکین و نادار لوگ جو حج کی کسی طرح استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی بظاہر کوئی امید ہے، وہ مایوس نہ ہوں ان کا جمعہ کے لئے جانا اور اس کو ادا کرنا ایسا ہے گویا انہوں نے حج کیا ہے۔ ایک اور روایت ہے کہ جمعہ فقراءکا حج ہے حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے سوا جہنم (ہر روز) بھڑکائی جاتی ہے۔ اس دن صدقہ خیرات کا ثواب بھی دگنا ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کو جمعہ کے دن نہیں چھوڑتا، مگر اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جمعہ مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ جمعہ کی رات روشن ہوتی ہے اور جمعہ کا دن روشن سفید ہوتاہے۔ اس حدیث کے تحت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا شب جمعہ لیلتہ القدر سے بھی افضل ہے کیونکہ شب جمعہ حضور کا نور حضرت سیدہ آمنہ ؓ کے رحم اقدس میں قرار پذیر ہوا اور آپ کا ظہور دنیا و آخرت میں جن خیرات و برکات کا موجب ہے وہ حد و شمار سے باہر ہیں۔

 حضرت اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا جب جمعہ سلامتی سے گزرے تو باقی ایام بھی سلامتی سے گزریں گے اور جب ماہ رمضان سلامتی سے گزرا تو پورا سال سلامتی سے گزرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہوتا ہے ، اللہ اسے فتنہ قبر (یعنی عذاب قبر) سے بچا لیتا ہے حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہوتا ہے وہ عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مہر لگی ہو گی۔

 حضرت ابو ہریرہؓ کابیان ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے دروازوں پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو (مسجد میں داخل ہونے والوں کو) ترتیب وار لکھتے ہیں پس جب امام مسجد خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتا ہے تو وہ اپنی فائلوں کو بند کر دیتے ہیں اور خطبہ جمعہ سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جلدی آنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ کرتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کی راہ میں گائے صدقہ کرتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے مینڈھا صدقہ کیا۔ اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے مرغی صدقہ کی اور اس کے بعد آنے والا ایسا ہے جس نے انڈہ صدقہ کیا۔حضرت علقمہؓ کابیان ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کے ساتھ جمعہ کے لئے گیا تو ان سے پہلے تین آدمی مسجد میں آچکے تھے۔ انہوں نے فرمایا چوتھا نمبر ہے اور یہ نمبر بہت دور کا ہے میں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے دن جمعہ میں آمد کے حساب سے اللہ تعالیٰ کے قریب بیٹھیں گے پہلے او_¿ل،پھر دوسرا،پھر تیسرا،پھر چوتھا بہت دور ہے حضرت اوس بن اوس ثقفی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا اور مسجد میں جلدی آیا۔ پیدل چل کر آیا سوار ہو کر نہیں آیا۔ امام کے قریب بیٹھا، خطبہ سنا، اس دوران کوئی بے ہودہ حرکت نہ کی تو اس کے لئے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور راتوں کے نفلوں کا ثواب ہے۔

 حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول پُر نور نے فرمایا جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل اور جس قدر ہو سکے خوب طہارت و صفائی حاصل کرے، تیل لگائے،یا گھر کی خوشبو مل لے پھر نماز جمعہ کے لئے گھر سے مسجد کی طرف نکلے اور دو شخصوں کے درمیان تفریق نہ کرے پھر مقدر میں جتنا لکھا ہو نماز پڑھے پھر جب امام خطبہ دے تو خاموش رہے تو اب سے دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ حضرت ابو امامہؓ کابیان ہے رسول اللہ نے فرمایا بےشک جمعہ کے دن غسل کرنا گناہوں کو بالوں کی جڑوں سے بہا دیتا ہے، یعنی گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ان احادیث نبوی سے ثابت ہوا کہ جمعہ کا دن کتنا فضیلت والا ہے اور اس دن غسل کرنا،مسواک کرنا خوشبو لگانا، حسب توفیق عمدہ کپڑے پہننے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ جمعہ چونکہ قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اس لئے اس کا منکر کافر ہے۔ نماز جمعہ کے لیے خطبہ شرط ہے جس طرح دوگانہ جمعہ فرض ہے۔ اسی طرح خطبہ بھی فرض ہے جو آداب نماز کے لئے ہیں،وہی خطبہ جمعہ کے لئے ہیں یہی وجہ ہے کہ خطبہ کے دوران بات چیت کرنا ادھر ا_±دھر دیکھنا اور لغو کام کرنا حتیٰ کہ ہاتھ سے کوئی چیز ہٹانا بھی ممنوع و حرام ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ نبی پاک نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن خطبہ کے دوران کلام کیا وہ اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں اٹھائی ہوئی ہوں اور جس نے دوسرے سے کہا کہ خاموش ہو جاﺅ، اس کے لئے جمعہ کا ثواب نہیں، معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ عام خطبات و تقاریر کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کو انتہائی ادب، انہماک و التفات سے سماعت کرنا چاہئے تاکہ اس کے فیوض و برکات سے ہم سب مستفیض ہو سکیں۔ 

جمعہ کے بعد اذکار اور دعا کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول برحق نے فرمایا جس نے نماز جمعہ کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے سو مرتبہ یہ کلمات کہے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم و بحمدہ اسغفراللہ تو اللہ اس کے ایک لاکھ گناہ معاف فرما دے گا اور اس کے والدین کے چوبیس ہزار گناہ معاف فرما دے گا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ سرکار کونین نے فرمایا جس نے جمعہ کے بعد سورہ_¿ فاتحہ،سورہ_¿ اخلاص، قل اعوذ برب الفلق،قل اعوذ برب الناس پڑھی تو اس کی آئندہ جمعہ تک حفاظت کی جائے گی تو معلوم ہوا کہ ہر عام جمعہ کی اتنی فضیلت ہے تو پھر رمضان المبارک کے جمعہ کی کیا شان ہو گی اور جمعتہ الوداع تو رمضان کے جمعہ کا سردار ہے اس کی فضیلت کا اندازہ لگائیے کہ یہ کتنی سعادتوں ،رحمتوں اور برکتوں کا حامل ہو گا۔ اس کی ایک ایک گھڑی کس قدر برکت سے لبریز ہے اگرچہ رمضان کا ہر جمعہ اور باقی مہینوں کے بھی تمام جمعے عید کا منظر پیش کرتے ہیں خاص طور پر جب جمعتہ الوداع آتا ہے تو مساجد میں عید کا سماں ہوتا ہے۔ گڑگڑا کر اللہ کے حضور عاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے اور خصوصی دعائیں کیں جاتیں ہیں کیونکہ ہر مسلمان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اب اس جمعہ کے بعد رمضان کا اور جمعہ نہیں آئے گا اور یہ جمعہ تو ماہ رمضان کو الوداع کر رہا ہے اور زبان حال سے اعلان کر رہاہے کہ اب تو یہ ماہ صیام دوچار دنوں کا مہمان ہے۔ اس کی رحمتیں جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو پھر تو یہ ایک سال بعد اپنی تمام تر رحمتوں ، برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ سایہ فگن ہو گا اور زندگی کا کیا بھروسہ کہ اگلے سال تم اس کا استقبال کر سکو یا نہ کر سکو،لہٰذا جتنے دن جتنی ساعتیں باقی ہیں ان سب سے خوب فائدہ اٹھالو اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لو۔ سب سے اہم بات یہ کہ جمعتہ الوداع ماہ رمضان کے آخری عشرے میں آتا ہے جب رحمت خداوندی بھی عروج پر ہوتی ہے اور یہ عشرہ جہنم سے آزادی اور چھٹکارے کی نوید سناتا ہے اور یہی وہ عشرہ ہے جس میں خوش نصیب حضرات اعتکاف میں بیٹھ کر قربِ الٰہی حاصل کرنے اور روحانیت کو جلا بخشنے کی سعی کرتے ہیں اور اسی عشرے میں لیلتہ القدر بھی آتی ہے جو ہزار ماہ کی عبادت سے افضل ہے۔ ماہ رمضان کا آخری جمعہ جہاں روزہ داروں،عبادت گزاروں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے اجر و ثواب کی نوید سناتا ہے وہاں اس ماہ مقدس کے رخصت اور الوداع ہونے کا اعلان بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اللہ کے نیک بندے اس مہینے میں خلوص و محبت سے عبادت،ذکر و فکر،توبہ استغفار ، روزے رکھ کر اور نماز تراویح ادا کرتے ہوئے،اس سے مانوس ہو چکے ہوتے ہیں، اس کی ایک ایک ساعت کو اپنے لئے بہت بڑی سعادت اور رب کی رحمت تصور کرتے ہیں۔ 

اس جمعتہ الوادع کے موقع پر وہ انتہائی مغموم و محزون رنجیدہ خاطر اور اشکبار ہو جاتے ہیں ان کے دل پر جو کفیت گزرتی ہے اسے لفظوں کی زبان سے بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں یہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ نیکیوں کا موسم بہار ختم ہونے والا ہے سحر و افطار کی برکات کا سلسلہ منقطع ہونے والا ہے، مساجد کا پُرکیف منظر نظروں سے ہٹنے والا ہے، یہ جمعتہ الوداع ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ اب بھی وقت ہے ہم اپنا اپنا محاسبہ کر لیں، اعمال کا جائزہ لیں، ان کو درست کر لیں، اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی میں ہزار بار جمعتہ الوداع اور لیلتہ القدر کی مبارک سعادتیں عطا فرمائے اور ہم سب کے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دے۔ آمین ثم آمین  ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -