آج کل کے ڈرائیور گاڑی اس طرح کے آرام دہ ماحول میں رہ کر چلاتے ہیں جیسے وہ ڈرائینگ روم کے کسی گوشے میں بیٹھے گپ شپ لگاتے ہیں

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:81
آج کل کے ڈرائیور گاڑی اس طرح کے آرام دہ ماحول میں رہ کر چلاتے ہیں جیسے وہ ڈرائینگ روم کے کسی گوشے میں بیٹھے گپ شپ لگاتے ہیں۔ صاف ستھرے یونیفارم اور سیاہ پی کیپ میں وہ کوئی فوجی افسر ہی لگتے ہیں۔ وہ ائیر کنڈیشنڈ کیبن کے انتہائی آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر انجن کے کل پرزے مروڑتے اور مختلف بٹنوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اور اتنی بڑی گاڑی اپنی اکڑ فوں بھول کر اس کے اشاروں پر ناچتی رہتی ہے۔
ان کے پاس دور جدید کی تمام سہولتیں میسر ہیں اور ان کا رابطہ وائی فائی، نیٹ اور موبائل فون کے ذریعے قریبی اسٹیشنوں، آس پاس کے ڈرائیوروں، اپنے گارڈ اور ہیڈ کوارٹر سے رہتا ہے۔ان کے کیبن میں لگے ہوئے ننھے سے ریفریجریٹر، مائکرو ویو اوون اور چائے بنانے کے ہیٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے سکرین پر جگمگاتی روشنیاں انجن کی ساری کارکردگی اور کرتوتیں سامنے لگے ہوئے کمپیوٹر سکرین اور مختلف گیجوں پر نظر آتی رہتی ہیں۔ انجن سے چھوٹی موٹی کوئی خطا ہو جاتی ہے تو کیبن میں انتہا درجے کا شور مچ جاتا ہے اور ڈرائیور وہیں بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر کے ٹچ سکرین اور بٹنوں کو دبا کر اس کا ازالہ کر لیتے ہیں۔چونکہ اْن کے پاس یہ پیچیدو نظام سمجھنے کے لیے درکار اصولی اور تکنیکی تعلیم ہوتی ہے اس لیے یہ دور جدید کے تمام برقی آلات اور کمپیوٹر کا بنیادی نظام سمجھتے ہیں اور اسے پورے اعتماد سے استعمال کرتے ہیں۔ ریل گاڑی کا تمام عملہ ان کو عزت اور تکریم سے سر کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔تاہم بے تکلف ماتحت تنہائی میں انھیں نام سے بھی پکار لیتے ہیں۔
50 برس پیچھے چلے جائیں تو تب ایسا قطعی نہیں ہوتا تھا۔ بھاپ والے انجن چلانے اور سنبھالنے کا کام بڑا ہی مشکل ہوتا تھا۔ مسلسل آگ اگلتے بوائلر اور انتہائی دباؤ سے خارج ہونے والی بھاپ سے وہاں کام کرنے والوں کے چہرے جھلس جاتے تھے۔ کوئلوں کے ذرات اڑ اڑ کر سارے جسم، چہرے اور کپڑوں پر چمٹ جاتے تھے۔ اس لیے وہ چلتے پھرتے بھوت نظر آتے تھے رات کو سیاہ سانڈجیسے دخانی انجن کے پس منظر میں ان کو علیٰحدہ سے پہچاننا مشکل ہوتا تھا۔ جو کام آج کل کے ڈرائیور محض ایک بٹن دبا کر کر لیتے ہیں اسے کرنے کے لیے ان کو اور فائر مین کو انجنوں کے بڑے بڑے کل پرزوں سے باقاعدہ کشتیاں بھی لڑنا پڑتی تھی بسا اوقات تو انھیں لوہے کی سلاخوں اور لیوروں کو اِدھر اْدھر کرنے کیلیے کے ان کے ساتھ اچھل کود اور دھینگا مشتی بھی کرنا پڑتی تھی اور ان سے لٹکنا بھی پڑتا تھا۔ سامنے ان کو کچھ نظر نہیں آتا تھا کیونکہ حد نظر میں بوائلر، سٹیم ڈوم،چمنیاں، بڑی سی ہیڈلائٹ اور ایسی ہی الم غلم چیزیں حائل ہو جاتی تھیں۔ اس لیے وہ بغلی کھڑکیوں سے ہی باہر جھانکتے تھے۔ ان کا ایک کان انجن کی آواز پر اور دوسرا گارڈ کی سیٹی پر لگا رہتا تھا۔ اسی طرح ایک آنکھ سامنے پٹری اور سگنل پر اور دوسری اسٹیشن ماسٹر یا لیول کراسنگ والے کی سبز یا سرخ جھنڈی پر لگی ہوئی ہوتی تھی۔ انجن کے بریک بھی اس وقت ہائڈرولک، ویکوم یا پریشر والے نہیں ہوتے تھے اور اس کو دبانے کے لیے اس کے پیڈل پر کھڑا ہو کر اچھا خاصہ زور لگانا پڑتا تھا۔
اْس زمانے کے ڈرائیور بمشکل مڈل پاس ہوتے تھے۔ان کے خدو خال چیخ چیخ کر اعلان کرتے تھے کہ یہی اس انجن اور گاڑی کے کرتا دھرتا ہیں۔ کوئلے کی راکھ سے سیاہ کپڑے، کھچڑی داڑھی اور سر پر میلا سا سیاہ یا سرخ رومال، یہ ان کا عمومی حلیہ ہوتا تھا اور سب ان کو چاچا جی کہہ کر بلاتے تھے کہ وہ عمر رسیدہ، تجربہ کار اور ریلوے کا جہاں دیدہ ملازم تصور کیا جاتا تھا۔ کئی دل جلے تو ان کو پکارتے وقت ”جی“ کا لاحقہ بھی لگانے کے روادار نہیں ہوتے تھے اور ان کو سیدھا ہی چا چا کہہ دیا کرتے تھے اور وہ اس کا برا بھی نہیں مناتے تھے اور اپنی اس عزت اور تکریم پر ہی خوش رہتے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔