ایک شام ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام (1)
معروف شاعر، نقاد، مترجم، معلم خورشید رضوی کے اعزاز میں صوفی تبسم اکیڈیمی نے ایک شام خورشید رضوی کے نام کا اہتمام کیا جس میں اُن کی علمی و ادبی خدمات پر ملک کے نامور ادیب، شاعر اور اساتذہ نے سیرحاصل گفتگو کی جن میں صوفی تبسم اکیڈیمی کی چیئرپرسن راقم، ڈاکٹر شاہد اشرف، ڈاکٹر خالد سنجرانی، نوید صادق، فرحت پروین اور سعود عثمانی شامل تھے۔ نظامت کے فرائض سیّدذیشان نے ادا کیے۔ جن شخصیات نے اس پروگرام میں شرکت کی اُن میں نیلم احمد بشیر، رخشندہ نوید، فرحت پروین، مسرت کلانچوی، اسلم ملک، قیصربٹ، طارق خورشید صوفی، ایڈووکیٹ نسیم نقوی، رضوان نصیر، وحیدخواجہ، احمدوقاص ریاض اور گورنمنٹ کالج کے طلباء شامل ہیں۔ آغا علی مزمل نے صوفی تبسم اکیڈیمی کے کام اور مقاصد پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ صوفی تبسم اکیڈیمی کا اجراء ۱۹۷۹ء میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی وفات کے بعد کیا گیا۔ ۱۹۷۹ء ہی سے یہ اکیڈیمی مسلسل ادب، کلچر کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے جس میں بچوں کے لیے ڈرامے، فیسٹیول، پنجابی کلچر کے فروغ کے لیے طوطیا من موطیا موزیکل پروگرام جس میں مزاحیہ سبق آموز ڈرامے بھی شامل ہوتے ہیں اور پنجاب کے صوفیاء کرام کو پوٹرے کیا جاتا ہے۔ Creative Art کے حوالے سے ورکشاپس کروائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کتابوں کی رونمائی، شاعر ادیبوں اور اساتذہ کے ساتھ شام منائی جاتی ہے، مشاعرے، مسالمے اور نعتیہ مشاعرے شامل ہیں۔ الحمرا آرٹس کونسل میں ڈراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں یہ ڈرامے ”اج آکھاں وارث شاہ نوں“، سُر، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، سکھ سفنے وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں زیادہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیز کے طلباء کام کرتے ہیں۔اس کے لیے Visual Art Workshops کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ شامِ غزل کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں سے آئے لوگ اور مختلف ملکوں کے ادارے بھی صوفی تبسم کے آرکائیو دیکھتے ہیں اور تصویریں بھی بنواتے ہیں۔ یوں صوفی تبسم اکیڈیمی ادب اور کلچر کے لیے فعال کردار ادا کررہی ہے۔ آغا مزمل کی اس تقریر کے بعد ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے کہا کہ میری بہت عرصہ سے خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو مدعو کروں اور اُن کی گفتگو اور شخصیت سے فیضیاب ہوں۔ آج ڈاکٹر خورشید صاحب کے آنے پر انتہائی خوش ہوں موسم تو بہت گرم ہے مگر ہماری اکیڈیمی میں اس موسم میں بھی سب کا تشریف لانا بہت بابرکت ہے۔ سب ڈاکٹر خورشید رضوی کی محبت میں تشریف لائے ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی طبیعت میں گدازئیت اور حقیقت جوئی بدرجہ اتم موجود ہے وہ یک رنگی و مستقیم روی کے قائل انسان ہیں۔ وہ انسانوں کی ریاکاری اور ملمع کاریوں سے یکسر بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کیا خوبصورت شعر ہے۔
لرز رہا ہے عدو مجھ کو زیر کرتے ہوئے
کہ ہوں تو میں بھی قیامت اگر بپا ہوجاؤں
سعود عثمانی نے فرمایا کہ میری پہلی ملاقات ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے اُس وقت ہوئی جب رضوی صاحب سرگودھا سے لاہور منتقل ہوئے اور پھر ایسا رابطہ ہوا کہ آج تک ہم جڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ پاکستان میں بھی سفر کیے اور بین الاقوامی سفر بھی کیے۔ ان کے اشعار یاد آرہے ہیں۔
پھر دورِ شباب یاد آیا
ڈھلوان پر پھول کھل رہے ہیں
ہنگامے فراقِ جسم و جاں ہے
بچھڑے ہوئے لوگ مل رہے ہیں
نوید صادق نے اپنے مضمون میں لکھا کہ خورشید رضوی ماضی میں بہت وقت گزارتے ہیں۔ ان کی تحقیق و تنقید ہو کہ شاعری، ماضی واضح رہے کہ یہ ماضی صرف خورشید رضوی کا ماضی نہیں یہ صرف اُن کے آباؤاجداد کا ماضی نہیں یہ پوری انسانیت کا ماضی ہے۔ وہ سب پیچھے رہ گیا جو گزر گیا کسی فلم کی طرح اُن کے ذہن میں چلتا رہتا ہے وہ اپنے پہلے مجموعہئ کلام ”شاخِ تنہا“ ہی میں وہ اس حقیقت کو پاگئے تھے۔
سیل ماضی کو نشیبِ جاں میں بھرنے دیجیے
آج پھر احسان کو ڈھلنے سنورنے دیجیے
ڈاکٹر خالد سنجرانی فرماتے ہیں کہ نوے کی دہائی کے آغاز میں جب ہم گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے تو لوئرمال کی دوسری جانب واقع ہاسٹل کی بالکنی سے جی سی اوول گراؤنڈ میں جھانکے تو ایک خوش کن منظر نے اپنے حصار میں لے لیا۔ کہتے ہیں جی سی کے ہرے بھرے لان میں ایک بینچ پر خورشید الحسن رضوی اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر محو گفتگو ہیں۔ اس قدر کہ اپنے اردگرد سے انجان، مزید فرماتے ہیں یہ پہلا منظر تھا کہتے مزید کچھ دیر بعد وہیں بالکنی کے پس منظر میں موجود واش روم میں ہاتھ دھونے کے لیے آیا تو آنکھ پھر اس منظر کی ہوگئی کہ بالکل وہیں ڈاکٹر صاحب اور زاہد منیر عامر صاحب بیٹھے علم وادب کی جانے کیا گتھیاں سلجھا رہے ہیں جو وقت کی پابندی سے ماورا بیٹھے ہیں۔ فرماتے ہیں میں تو ہاتھ دھو کر مڑگیا جب شام ڈھلی تو مغرب کی اذان کا وقت ہورہا تھا میں وضو بنانے کے لیے اسی طرف پھر آیا تو انہیں وہیں بیٹھے دیکھا تو حیرت بھری شادمانی کا احساس میرے وجود میں اتر گیا کہ کوئی علم و ادب سے اس حد تک بھی متعلق ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ بڑا ہی حسین منظر تھا، آج اگر میں سوچتا ہوں کہ اپنے زمانے میں بچوں کو کس طرح بننا چاہیے یا کس کو آئیڈیل رکھنا چاہیے تو وہ شخصیت یہی ہے جو ہمارے تمہارے درمیاں اپنی برکتیں لیے ہے۔ ہمارے بچوں نوجوانوں کو یہ واضح معلوم ہونا چاہیے کہ شخصیت اور اس کے مشاغل ایسے ہوں تو ان کو زندگی میں احساسِ محرومی کا اندیشہ لاحق نہ ہوگا۔
فرحت پروین نے کہا کہ میں جب بھی ڈاکٹر خورشید رضوی سے ملتی ہوں تو اُن سے کچھ نہ کچھ وقت چاہتی ہوں کہ میں بھی اُن کی صحبت میں بیٹھ کر اُن سے کچھ سیکھ سکوں۔ وہ آج کے دور کی بہت بڑی شخصیت ہیں جن کی دل سے قدر کرتی ہوں۔