سنکیانگ کے بارے میں غلط بیانیے سے امریکی ٹیکس دہندگان کو لاکھوں ڈالر کا نقصان
ارمچی(شِنہوا) چین کا سنکیانگ ویغورخود مختار علاقہ سیاحت کے ایک اور تیزی سے بڑھتے ہوئے سیزن کا خیر مقدم کر رہا ہے جس میں کاشغر کے اولڈ ٹاؤن اور ارمچی کے گرینڈ بازار جیسے مشہور پرکشش مقامات اندرون و بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
2 کروڑ 58 لاکھ کی آبادی والے سنکیانگ میں 2023 میں 26 کروڑ 50 ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے ، جس سے سیاحت کی آمدنی 296.7 ارب یوان (تقریباً 42ارب امریکی ڈالر) ریکارڈ کی گئی، جو اسی سال امریکی ریاست ہوائی میں سیاحوں کے اخراجات سے دگنی ہے۔
سیاحت کا پھلتا پھولتا شعبہ سنکیانگ کی متحرک سماجی اور معاشی ترقی کا صرف ایک پہلو ہے، جس کے خلاف امریکہ نے امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر سنکیانگ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے چیف آف سٹاف لارنس ولکرسن نے 2018 کی ایک تقریر میں چین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ویغور خود مختار علاقے کو استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔سنکیانگ کے لوگوں کے لیے اس طرح کی سکیم بہت غلط ہو گی۔ اس کے باوجود امریکہ نے حالیہ برسوں میں چین پر قابو پانے کے لیے واضح طور پر سنکیانگ پر اپنی شرط لگائی ہے اور اس کی پہلی سازشوں میں سے ایک خطے کے خلاف جنونی مہم شروع کرنا تھا۔
جبری مشقت، اقلیتوں پر ظلم و ستم اور یہاں تک کہ نسل کشی جیسے بے بنیاد الزامات محض مذاق کے سوا کچھ نہیں ہیں، لیکن یہ مقاصد جو سب پر واضح ہیں کہ واشنگٹن ان جھوٹے بیانیوں پر ہر سال لاکھوں ٹیکس ڈالر خرچ کرتا رہا ہے۔
مثال کے طور پر نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی (این ای ڈی) جو بنیادی طور پر امریکی کانگریس کی مالی اعانت سے چلتا ہے، چین مخالف علیٰحدگی پسند ویغور تنظیموں کی مدد کے لیے ہر سال لاکھوں ڈالر فراہم کرتا ہے۔
ان میں بدنام زمانہ ورلڈ ویغور کانگریس بھی شامل ہے، جس کے سربراہ ڈولکون عیسیٰ بیلجیئم کی ایک یونیورسٹی میں ترکیہ کی 22 سالہ طالبہ کے جنسی سکینڈل میں پکڑے گئے تھے اور انہیں اس سال کے اوائل میں عارضی طور پر مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔گزشتہ چند ماہ کے دوران انہیں سوئٹزرلینڈ، بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا اور امریکہ میں دیکھا گیا ہے اور ان کے لباس سے معلوم ہوتا ہے کہ فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے۔
این ای ڈی کی ویب سائٹ کے مطابق 2021 میں این ای ڈی کی طرف سے مختلف ویغور " انسانی حقوق کی وکالت " منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 25 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی امداد دی گئی۔پچھلی گرانٹس کی فہرست دینے والا ویب صفحہ تیار ہو رہا ہے اور 2022 اور 2023 کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اپنی ویب سائٹ پر این ای ڈی نے نام نہاد ویغور وکالت تنظیموں کا واحد ادارہ جاتی فنڈر ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، جس نے 2004 سے 2020 تک ویغورگروپوں کو 87 لاکھ 58 ہزار300 ڈالر دیئے۔
تاہم افواہیں پھیلانے والے ذرائع واحد نہیں ہیں جس کے لیے امریکی ٹیکس دہندگان ادائیگی کر رہے ہیں بلکہ وہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بہت سی اشیاء کی زیادہ قیمتوں کی ادائیگی بھی کر رہے ہیں، جن میں نام نہاد ویغور جبری مزدوری کی روک تھام ایکٹ کے مطابق عائد پابندیاں بھی شامل ہیں۔
مثال کے طور پر چین کے شمسی پینل ، امریکی پینلز کے مقابلے میں 20 سے 40 فیصد سستے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ نے چینی شمسی پینل کمپنیوں سے درآمدات کو روک دیا ہے، جس سے نہ صرف ان درآمد کنندگان کو زیادہ لاگت آتی ہے اس اقدام نے بلکہ ملک کی قابل تجدید توانائی کے اہداف کے حصول کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دیاہے۔
چونکہ یو ایف ایل پی اے ادارے کی فہرست میں شامل کاروبار ملبوسات، زراعت، پولی سلیکون، پلاسٹک، کیمیکلز، بیٹریوں اور گھریلو آلات جیسے شعبوں کی ایک وسیع رینج میں شامل ہیں، اس لیےامریکی مینوفیکچررز اور صارفین پر مجموعی اثر وسیع ہونے کا امکان ہے.
دریں اثناء اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ امریکی پابندیوں نے سنکیانگ کی سماجی اور معاشی ترقی کو کوئی سنگین دھچکا پہنچایا ہے۔ خطے کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) نے 2023 میں 6.8 فیصد کی شرح نمو درج کی، یو ایف ایل پی اے کو 2021 کے آخر میں مںظر عام پر آنے اور جون 2022 میں نافذ ہونے کے بعد یہ پہلا پورا سال تھا جبکہ فی کس ڈسپوزایبل آمدنی 28 ہزار 9 سو 47 یوان (تقریبا 4 ہزار 63 امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کی نسبت 7 فیصد زیادہ ہے۔
بہت سے غیر ملکی وی لاگرز نے سنکیانگ میں مختلف مقامات کے اپنے دوروں کے دوران دنیا کو دکھایا ہے کہ مقامی معاشرہ اتنا ہی خوشحال ہے جتنا یہ مستحکم اور ہم آہنگ ہے اور سنکیانگ کے لوگ بشمول ویغور اور دیگر نسلی اقلیتی گروہ سب ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں تک پابندیوں کا تعلق ہے برآمدی پابندیوں نے یقینی طور پر کچھ مشکلات پیدا کی ہیں، لیکن کمپنیاں برقرار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دیوالیہ نہیں ہوئی ہے۔ ان کی مصنوعات یا تو چین کی وسیع مقامی مارکیٹ کے ذریعہ استعمال کی جاتی ہیں یا دوسرے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ امریکی مارکیٹ کو کھونا افسوسناک ہوسکتا ہے لیکن یہ تباہ کن نہیں ہے۔
مثال کے طور پر ایک سلیکون مینوفیکچرر شِنہوا نے گزشتہ ہفتے دورہ کیا، جو مزید امریکی پابندیوں کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے، وہ اپنی مصنوعات کو زیادہ مسابقتی بنانے کے لئے پیداواری چینز کو بڑھانے اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔انہوں نے پچھلے 2 برسوں میں ایک بھی ملازم کو فارغ نہیں کیا ہے اور ان کی آمدنی مستحکم رہی ہے۔
نقصانات کو فوائد میں تبدیل کرنے کے روایتی چینی فلسفے کی عکاسی کرتے ہوئے اس کاروباری ادارے کے ایک ایگزیکٹو نے شِنہوا کو بتایا کہ کمپنی کا خیال ہے کہ امریکی مارکیٹ سے باہر ہونے کے بعد سخت مسابقتی ماحول میں زندہ رہنے اور کامیاب ہونے کا واحد طریقہ اپنی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے۔
درحقیقت سنکیانگ لچک اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس نے رواں سال کے لیے اپنے ترقیاتی اہداف کا اعلان کیا ہے ، جس میں جی ڈی پی کی شرح نمو 6.5 فیصد کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی رہائشیوں کی فی کس ڈسپوزایبل آمدنی کے لیے بالترتیب 6.5 فیصد اور 7.5 فیصد اضافہ شامل ہے۔
اگر واشنگٹن سنکیانگ کے خلاف کیچڑ اچھالنے کی مہنگی کارروائی جاری رکھتا ہے تو اس کے نتیجے میں مزید امریکی ٹیکسوں پر مشتمل ڈالر فضول مقصد کے لیے ضائع ہو جائیں گے۔