بھرپور اور صحت مند زندگی کے مالک افراد پریشانی سے محفوظ ہوتے ہیں، سوچوں میں گم ہو کر زندگی کے موجود لمحات (حال) کو ضائع نہیں کرتے

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:183
بھرپور اور صحت مند زندگی کے مالک یہ افراد احساس ندامت اور پشیمانی کے علاوہ بے چینی و پریشانی سے بالکل محفوظ ہوتے ہیں اور مستقبل یا ماضی کے بارے سوچوں میں گم ہو کر اپنی زندگی کے موجود لمحات (حال) کو ضائع نہیں کرتے۔ یقینا ان میں اس قدر حوصلہ موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کر سکیں اور پھر ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر وہ اپنے لیے بہتر راستے تلاش کرتے ہیں لیکن یہ افراد ان حسرتوں میں ڈوب کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے کہ فلاں کام وہ کر نہیں سکے تھے یا وہ اپنے ناپسندیدہ ماضی کو یاد کرنے میں بھی اپنا وقت نہیں گنواتے۔ ان کی ہیئت، تعمیری اور صحت مند روئیے اورطرزعمل کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ندامت وپشیمانی سے بالکل مبرا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماضی پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس قسم کے نامعقول سولات پوچھ کر دوسرے لوگوں کو شرمندگی میں مبتلا کرتے ہیں: ”آپ نے یہ کام غلط کیوں کیا؟“ یا ”کیا تمہیں اپنے کیے پر شرم محسوس نہیں ہوتی؟“ انہی یہ ادراک اور فہم حاصل ہوتی ہے کہ زندگی کو جیسے گزارنا ہوتا ہے، ویسے ہی گزرتی ہے اور وہ اپنے کسی احساس شرمندگی یا افسوس کے ذریعے ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ وہ بغیر کسی کوشش کے خود کو احساس ندامت و پشیمانی سے نجات دلا دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہوتا ہے، وہ دوسروں کو بھی ندامت و پشیمانی میں مبتلا نہیں کرتے۔ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اپنی زندگی کے موجود لمحات (حال) میں ماضی کے بارے کف افسوس ملنے سے ان کے احساس کمتری میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی شخصیت بے وقعت اور ناقابل قدر قرار پاتی ہے۔ انہیں یہ بھی علم ہوتاہے کہ ماضی کی غلطیوں پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے ان سے سیکھنے کا عمل زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ وہ دوسروں میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کے باعث انہیں ملامت کر رہے ہیں اور نہ آپ ہی اس طریقے کے ذریعے طاقت کا نشانہ بنا سکیں گے۔ وہ آپ پر کبھی ناراض نہیں ہوتے بلکہ محض آپ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ آپ کے ساتھ پریشانی و بے چینی میں مبتلا ہونے کے بجائے وہ آپ سے راہ بدل لیتے ہیں یا پھر موضوع تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے طو رپر بھرپور زندگی گزارنے کے لیے جو نفیس اور شاندار طریقے استعمال کرتے ہیں، عام لوگ ان طریقوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اپنے آپ اور دوسروں کو ندامت و پشیمانی کی تباہ کاریوں میں ملوث کرنے کے بجائے وہ ان ندامتوں اور پشیمانیوں پر کوئی توجہ دیئے بغیر ان سے صرف نظر کر لیتے ہیں۔
اسی طرح جو لوگ اپنی شخصیت اور کردار کو جملہ خامیوں اور کمزوریوں سے پاک کر لیتے ہیں، فکرمندی میں بھی مبتلا نہیں ہوتے۔ وہ حالات، جو عالم، لوگوں کو خدشات اور تفکرات میں مبتلا کر دیتے ہیں شاذونادر ہی ان پر اثر کرتے ہیں۔ یہ افرادنہ تو طویل المدت منصوبہ بندی کرتے ہیں اور تفکرات وخدشات کے باعث لاحق ہونے والی بے چینی وپریشانی سے بھی خود کو محفوظ رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ فکرمند کیسے ہوا جاتا ہے۔ یہ ان کی زندگی کا حصہ نہیں ہوتا۔ ضروری نہیں کہ وہ اپنے موجودہ لمحات (حال) میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھے رہیں لیکن وہ اپنے مستقبل کے متعلق بھی ناراضی اور غصے کا اظہار نہیں کرتے جو ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ ان کی زندگی موجودہ لمحات (حال) سے مرصع ہوتی ہے اور ان کی بصیرت ان کو یہ اشارہ کرتی اور پیغام بھیجتی ہے کہ ماضی اور مستقبل کی نسبت صرف موجودہ لمحات (حال) کے متعلق ہی تفکر کرنا چاہیے ا ور اگر موجودہ لمحات (حال) کو چھوڑ کر ماضی اور مستقبل کے متعلق تفکر کرنے بیٹھ جائیں تو یہ رویہ زندگی گزارنے کا ایک احمقانہ طریقہ ہو گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔