ہماری معیشت اور ہمارا طرزِ زندگی!
تاریخ میں لکھا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ (پاکستان کے آج کے حالات سے پھر بھی بہت بہتر تھے) تو برطانیہ نے ملک میں معاشی ہنگامی حالات لاگو کرتے ہوئے راشن، پیٹرولیم مصنوعات اور دوسری کئی اشیاء پر حد بندی مقرر کر دی تھی، کیونکہ معیشت کو سنبھالنے کے لئے برطانیہ نے امریکہ سے 17 ارب ڈالر کا قرض لیا تھا اور وہ جانتے تھے کہ نارمل حالات میں اتنی بڑی قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔ تو ظاہر ہے کہ پھر منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ کہ کس طرح ہم قرض کو ادا کر سکتے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم اور اس وقت کے وائسرائے ہند سمیت کسی کو بھی ایک سال میں دو جوڑے کپڑوں سے زائد کپڑے خریدنے کی اجازت نہ تھی۔ پیٹرولیم مصنوعات اور راشن کے لئے کارڈ دئیے گئے تھے جن میں حد مقرر تھی۔ اس طرح برطانیہ نے 1940ء میں لیا گیا قرض 1951ء سے پہلے واپس ادا کر دیا تو امریکہ نے بھی برطانیہ کی اس کارکردگی پر 15 ارب ڈالر امداد بھی دے دی۔
اب ذرا اپنے حالات کی طرف غور کیجیے۔ 80ء کی دہائی ہم نے کرائے کے مجاہدین دے کر امریکہ سے ڈالر حاصل کیے جن میں سے کچھ تو براہ راست سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں چلے گئے اور جو پاکستان میں آئے اس سے ہم نے کام کاج کرنا چھوڑ دیا یہ سوچے بغیر کہ یہ جہاد ہمیشہ نہیں رہے گا۔ پھر 90ء کی دہائی میں جن دو جماعتوں نے باری باری حکومتیں کیں ان کے درمیان اس چیز پر مقابلہ ہوتا رہا کہ کون زیادہ بین الاقوامی قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جب بھی کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے کوئی قسط مل جاتی تو اسے پاکستان میں اس طرح فاتحانہ مشتہر کیا جاتا جیسے ہم نے بنگلہ دیش واپس لے لیا ہو یا کشمیر پر سے بھارتی قبضہ چھڑا لیا ہے۔ پھر 1999ء کے اواخر میں ہمارے ایک کمانڈو جنرل صاحب آگے بڑھے کہ یہ ملک سیاستدانوں سے نہیں چل سکتا ل لہٰذا اب میں سب کچھ ٹھیک کروں گا۔ خدا کا کرنا ہوا کہ 2001ء میں 9/11 ہو گیا اور امریکی صدر کی کال آئی کہ پاکستان نے پتھر کے زمانے میں جانا ہے یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہونا ہے تو ہمارے کمانڈو کی ذہانت کی داد دیجیے کہ اس نے پاکستان کے مفاد میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ایجاد کرتے ہوئے اپنے ہی پیدا کردہ مجاہدین پر دھاوا بول دیا اور اگلے دو چار سال کے لیے ڈالروں کا بندوبست بھی کر لیا، پھر جب مجاہدین کا خاتمہ ہوا اور امریکہ اپنا پراجیکٹ مکمل کر کے واپس مڑ گیا تو ہماری معیشت پہلے سے بھی بدتر ہونے لگی۔
اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ صرف ہم قرضے واپس کرنے کی بجائے ان کی نئی معیاد کی درخواستیں لئے پھرتے ہیں اور صرف سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضوں کا حصول ناگزیر ہے۔ اب ان قرضوں کے بوجھ تلے سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو کسی ماہر معاشیات کے پاس ہی ہو گا لیکن ہم تو ایک سادہ سا اصول سمجھتے ہیں کہ جب انسان اپنی پے درپے غلطیوں سے قرضوں کی دلدل میں پھنس جائے تو پھر سب سے پہلے اپنے خرچے کم کرنا پڑتے ہیں اور اپنے کچھ اثاثے بھی فروخت کرنا پڑ سکتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کسی بھی سطح پر کوئی بچت کی کوشش کی ہے؟ہمارے حکمران، ہمارے بیورو کریٹس، ہمارے دانشور، ہمارے ٹی وی تجزیہ کار اور جدھر بھی دیکھیں سب سوٹڈ بوٹڈ نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں، جن کو ایندھن بظاہر مفت اور اصل میں عوام کے خون کی قیمت پر ملتا ہے۔ صرف ساری یا کچھ سرکاری گاڑیوں کو پانچ سال کے لئے روک دینے سے ہی ہم اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں اور ان گاڑیوں کے روک دینے سے کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ ستر چھپانے کے لئے دو ہزار روپے کا کپڑوں کا جوڑا مل سکتا ہے، لیکن یہاں لوگ پانچ لاکھ روپے کے سوٹ پہنے پھرتے ہیں۔ جوتے بھی سوٹ کے مطابق ہی پہنے جاتے ہیں۔ بعض امیر لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر وہ 10 برس تک کپڑے نہ بھی خریدیں تو ان کا گزارہ باآسانی ہو سکتا ہے۔
اب آپ سوچیں گے کہ اس طرح اپنی صنعت کو نقصان پہنچے گا، نہیں، ہم صرف درآمد ہونے والی غیر ضروری اشیاء کو پانچ برس تک نہ خرید کریں تو ہم اربوں ڈالر کے تجارتی خسارے کو بہت کم کر کے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ پھر ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ ایک طرف ہم گداگر اور دوسری طرف ہماری پوشاکیں ایسی کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جائے، کبھی کسی نے کینیڈا کے وزیر اعظم یا اس کی کابینہ کے کسی ممبر کو دیکھا ہو کہ انہوں نے کسی اسپیشل برانڈ کا کوئی بہت قیمتی سوٹ پہنا ہو؟آپ نے یورپ کے کسی ملک کی سڑکوں پر سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو دندناتے دیکھا ہو؟ کیا انہیں گاڑیوں کی ضرورت نہیں ہے؟ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ایک طرف ہم شاہانہ زندگی پر اربوں خرچ کرتے ہیں تو دوسری طرف محنت نہیں کرتے، ملکی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہیں دیتے بس سارا زور قرض حاصل کرنے پر لگاتے ہیں۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اچھے کپڑے پہننے اور بڑی گاڑیوں سے عزت بڑھتی ہے تو وہ یہ دیکھ لیں کہ عرب ممالک کی ایئرپورٹس پر بنگالی، بھارتی اور نیپالی زائرین عمرہ کو ہوٹل ملتے ہیں اور پاکستانی ایئرپورٹ کے اندر زمین پر سوتے ہیں، کیونکہ عزت قوموں کی ہوتی ہے۔ جب قوم دیوالیہ ہو تو پھر ہمارے حکمرانوں کی بھی کوئی عزت نہیں کرتا۔
پھر ملک ٹیکس پر چلتے ہیں جبکہ ہمارا کاروباری طبقہ ٹیکس دینے کو حرام سمجھتا ہے اور ٹیکس لینے والے تنخواہوں اور اوپر کی کمائی کو حلال اور ٹیکس لینے کو حرام سمجھتے ہیں۔ کیا حکومت ترجیحی طور پر یہ دو کام نہیں کر سکتی، ایک خرچے کم اور دوسرا ٹیکس لینے کا نظام درست کرنا؟ عمران خان کی حکومت سے چھوٹے کاروبار پر فکس ٹیکس لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن ابھی تک عملی طور پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ اب ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ اپنے لچھن درست نہ کیے تو دنیا بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر منہ موڑ لے گی۔