صرف ’نابالغوں ‘ کیلئے ، بالغ پڑھنے سے بچے رہیں ۔ ۔ ۔

صرف ’نابالغوں ‘ کیلئے ، بالغ پڑھنے سے بچے رہیں ۔ ۔ ۔
صرف ’نابالغوں ‘ کیلئے ، بالغ پڑھنے سے بچے رہیں ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گلوبل پِنڈ (محمد نواز طاہر) بالغ اور نابالغ کا فرق جاننے کیلئے بھی بالغ ہونا ضروری ہے۔ ستر کی دہائی میں بالغ کا لفظ پہلی بار ریڈیو پاکستان کے ایک اشتہار ’تعلیم بالغاں دے مرکز آ ( بالغوں کی تعلیم کے مرکز آئیں) سے سنا تھا۔ اس اشتہار میں بڑی عمر کے لوگوں کو ترغیب دی گئی تھی کہ تھوڑی بہت خواندگی کیلئے اس مرکز سے رجوع کریں۔ یہ مرکز اپنی آنکھوں سے دیکھاتوڈنڈے سے خالی استاد کا دیدار بھی کیا، حیرت ہوئی کہ یہ کیسا ’جعلی‘ استاد ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہی نہیں جبکہ ماسٹر صاحب کی تو شناخت ہی ’مولابخش‘ سے تھی۔ یہاں کسی طالبعلم کو مرغا بنا بھی نہ دیکھا تھا اور کسی کے رونے کی آواز بھی سننے کو نہیں ملتی تھی؟ وجہ صاف تھی کہ کئی طالبعلم تو ماسٹری جی سے دوگنا بڑی عمر کے بھی تھے لیکن بڑی تابعداری سے بیٹھے تھے۔ اس وقت پتہ چلا کہ بالغ بوڑھے کو کہا جاتا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ بوڑھے کو تو بچے جیسا ہونے کی مثال بھی دی جاتی ہے۔ ۔ پھر بالغ کیا؟ ۔اللہ بھلا کرے روزنامہ مساوات اور مشرق کا جو اس وقت دستیاب ہوتے تھے جنہوں نے ایک نئے لفظ ’بالغ النظری ‘کے پھڈے میں ڈال دیا۔ شرم حیا اور جھجھک کی وجہ سے نہ پوچھنے کی ہمت پڑتی اور نہ ہی کوئی کھل کر بتاتا تھا۔ پھر اس کا مطلب جنرل ضیاءالحق کے دور میں انگریزی فلموں نے واضح کردیا جن کے اشتہار کے ساتھ ’ صرف بالغوں کیلئے‘ لکھا ہوتا تھا۔ تب پتہ چلا کہ میری عمر کے سب بچے بالغ ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں سینما والے ٹکٹ دے دیتے تھے۔ بالغ کی بحث اور بلوغت کی عمر کے تعین کا’ نتارا‘تو لاہور ہائیکورٹ کے روبرو ایک معروف لومیرج کیس کی سماعت کے دوران ہوا مگر یہ صرف لڑکیوں کیلئے تھا لیکن بالغ نظری کا معاملہ یہاں بھی الگ تھا جبکہ میں بالغ النظر ہونے کا سرٹیفکیٹ اس سے کئی سال پہلے ایک سینئر صحافی المعروف پاءطارق اسماعیل سے لے چکا تھا۔ عدالت کی اس بحث نے واضح کردیا کہ بلوغت اور بالغ نظری کیا ہوتی ہے۔ اس کی اصل تعریف نوبزادہ نصراللہ کیا کرتے تھے کہ بالغ النظری ماضی، حال اور مستقبل کی صورتحال کو سمجھ کر اس کا جائزہ لینے کے بعد اس کے قریب الحقیقت کو جان کر سادہ الفاظ میں بیان کرنا ہے اس کا متبادل وہ ادراک کیا کرتے تھے۔ میڈیا کاجس قدر احترام نوابزادہ کیا کرتے تھے یہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ وہ بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ میڈیا بالغ النظر بھی ہے اور اسے ادراک بھی ہے لیکن جس لالچ اور مجبوری سے وہ بعض الفاظ استعمال کرتا ہے جن کے نتائج کا میڈیا کو ادراک نہیں۔ نوابزادہ اپنی خوبصورت اور شائستہ گفتگو سمیت خاک نشین ہوگئے، میڈیا نے بھر پورترقی کی مگر بے شمار مواقع پر اس ترقی کے سامنے نوابزادہ کا ’ادراک‘ سوالیہ نشان بن کر کھڑا پایا۔
نوابزادہ نے کئی بار سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اس انسانی ہمدردی کی نمائش پر بھی تنقید کی جب انہوں نے کسی مظلوم خاتوں کے سر پر کیمرے کے سامنے ہاتھ رکھا۔ نوابزادہ کے اس اداراک کا نوے کی دہائی کے اوائل میں عدالتی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ورکشاپ میںبھی کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس میاں محبوب احمد نے اس ادراک پر مہرثبت کی اور طے کیا گیا کہ ظلم یا خدا نخواستہ معاشرتی ناانصافی و جبر کا شکار ہونے والی کسی عورت کا نام اور مقام استعمال نہیں کیا جائے گا تاکہ اس خاندان کی عزت و وقار متاثر نہ ہو۔ کچھ عرصہ اس فیصلے کا احترام کیا لیکن پھر یہ بھی میڈیا کی ’ترقی‘ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر روزانہ ایسی خبریں شائع و نشر کی جا رہی ہیں کہ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ مختار مائی کون ہے؟ بلکہ مختارمائی کی ماڈلنگ تک دکھائی جاتی ہے۔ اب جگہ جگہ مختار مائی نظر آتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تنقید کیلئے ہر معاملے میں قرآن و حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر اس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ’ اللہ پردہ ڈالنے والوں کو پسند کرتا ‘ جبکہ یہ ان لوگوں کیلئے کہا گیا ہے جن کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔ جن سے گناہ نہیں ہوا اور ان پر ہونے والا ظلم انصاف کا تقاضا کرتا ہے تو انصاف میں تحفظِ ناموس و تکریم بھی شامل ہے جو ان کی شناخت اور انہیں اشتہارات بنانے سے داﺅ پر لگ جاتی ہے ۔
ہمسایہ ملک بھارت میں سرکاری اعدادو شمار میں تسلیم کیا گیا ہے کہ خواتین کیخلاف جرائم قابو سے باہر ہوگئے ہیں اور وہاں کی سپریم کورٹ نے اس ضمن میں خصوصی قانون سازی کی سفارش بھی کر رکھی ہے ۔ راہ چلتی، گھر میں سوئی، کام کاج میں مصروف خواتین حتیٰ کہ تین سالہ بچی کو سکول میں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں بھارتی ذرائع ابلاغ نے عام کی ہیں لیکن 16دسمبر 2012ءبھارت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن بنا جب ایک طالبہ کو بس میں سفر کے دوران چھ افراد نے جنسی اور جسمانی تشدد کا اس قدر نشانہ بنایا کہ اس کے کئی اعضا ناکارہ ہوگئے اور وہ مہنگے ترین ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود زندہ نہ بچ سکی لیکن بھارت کے میڈیا اور سیانوں نے اس کی شناخت بچا لی۔ کسی ٹی وی یا اخبار نے اس لڑکی، والدین یا رشتے دار کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ یہاں تک کہ آخری رسوم سے پہلے مدیروں کی کونسل نے فیصلہ کیا کہ اس کی آخری رسوم کی فلمبندی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی متاثرہ خاندان کی شناخت ظاہر کی جائے گی۔ بھارت کے ایک معتبر انگریزی خبر کی اس خبر نے مجھے اللہ کا حکم یاد دلادیا اور نوے کی دہائی میں ہونے والی اس ورکشاپ کا سارامنظر بھی کانوں اور آنکھوں کے سامنے رکھ دیا جس میں شناخت ظاہر نہ کرنے کے فیصلے کی تائید کرنے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ بھارتی ایڈیٹروں کے اس فیصلے سے نوابزاداہ نصراللہ خان کی اداراک اور بالغ النظری کی تعریف بھی سمجھ میں آ گئی ۔۔۔ جانے ہمارے میڈیا کے اربابِ اختیار کب سمجھ سکیں گے؟؟

مزید :

بلاگ -