ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کے لئے چین کو چلئے
آج کا کالم ایک انوکھی اور منفرد ٹیکسٹائل نمائش کا سندیسہ ہے۔ یہ نمائش ہر دو سال بعد مختلف ممالک کے آرگنائز اپنے اپنے ملک کے بڑے شہروں میں ٹیکسٹائل مشینری کا تعارف کرواتے ہیں۔ اس پروگرام میں ٹیکسٹائل صنعت کے سینئر ایگزیکٹو شرکت کرتے ہیں۔ یہ ٹیکسٹائل مشینری اور ٹیکنالوجی میں تازہ ترین پیش رفت کی نمائش ہے۔ حقیقتاً اس نمائش کا مقصد ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان کے معروف ٹیکسٹائل انجینئر سعد محفوظ قطب اور ندیم مظہر اس کے آرگنائزر ہیں۔
سعد محفوظ قطب اور ندیم مظہر ٹیکسٹائل ایشیاء اور Citimeیورپ کمپنیز کے حوالے سے لاہور میں ہر دو سال بعد اس کی تعارفی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں۔ مجھے بھی اس نمائش میں مدعو کیا جاتا ہے۔ یہاں میں سعد محفوظ قطب کا تعارف کرانا ضروری سمجھتی ہوں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ انہیں گورنمنٹ کالج کے اساتذہ خاص طور پر صوفی تبسم کے دور میں ان سے پڑھنے پر بے حد فخر ہے۔ گورنمنٹ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے امریکہ میں Itlantagiogia میں انٹرنیشنل کونسل آف ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی سے فیلوشپ حاصل کی جو کہ وہاں کی سب سے بڑی ڈگری ہے پھر مانچسٹر (UK) سے چارٹرڈ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجسٹ کی ٹیکسٹائل فیلو شپ کی ڈگری لی۔ 2019ء میں انٹرنیشنل کونسل آف ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ وہ واحد پاکستانی ہیں جنہیں اس یونیورسٹی سے گولڈمیڈل ملا۔ وہ 1968ء سے اس یونیورسٹی کے ممبر ہیں اور چیئرمین آف ٹیکسٹائل چیپٹر پاکستان ہیں۔ وہ 22ملکوں میں لیکچر دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر میں ٹیکسٹائل کی کتابوں پر مشتمل ایک خوبصورت لائبریری بھی سجا رکھی ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ایسے قابلِ احترام ڈاکٹر محفوظ قطب صاحب کو ٹیکسٹائل کے حوالے سے ایڈوائزر بھی لگایاجا سکتا ہے تاکہ ان کی قابلیت اور تجربات سے ملک کے لوگوں کو فائدہ پہنچے تو ہم بات کررہے تھے تعارفی نمائش کی۔ اس نمائش میں ملک کے نامور ٹیکسٹائل انجینئرز کے علاوہ سائنسدان اور جرنلسٹ شریک ہوئے۔ 14-18اکتوبر شنگھائی چائینہ میں ہونے والی کانفرنس پر بریفنگ دی گئی۔ اس میں پوری دنیا سے ٹیکسٹائل سے دلچسپی رکھنے والے کاروباری آتے ہیں اور انڈسٹری کے لئے خریداری بھی کرتے ہیں۔ وہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ماڈرن مشینری ہوتی ہے اس کی کارکردگی بھی دکھائی جاتی ہے۔ ہر خریدار مشینوں کو چلتا ہوا دیکھتا ہے تمام Prouss سے جانکاری حاصل بھی کرتا ہے۔اس نمائش میں مہمانِ خاص ضمیر احمد اعوان نے ٹیکسٹائل اور اس کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ چین بھی ہماری طرح ایک غریب ملک تھا اور ترقی کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ لیکن وہ آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور اوپر آتا گیا۔ چائینہ ٹیکسٹائل میں لیبر انٹینو انڈسٹری سے جان چھڑا رہا ہے کیونکہ چائینہ میں بھی مزدور کی لاگت بڑھ رہی ہے اور آبادی کے بھی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ چین ویسے بھی Hitech میں داخل ہو رہا ہے۔ چین روائتی انڈسٹری آہستہ آہستہ Hitech پر شفٹ کر رہا ہے۔ چین کے اس موڈ پر ہم اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں منافع بہت زیادہ ہے لوگوں کو روزگار بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ پاکستان کو اس سے مستفید ہونے کی بے حد ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم چین کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اگر پاکستان بھی چاہے تو چائینہ کی طرح وہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر انہیں اپنے ملک میں فیکٹریاں لگانے کے لئے راغب کریں اور ان سے سیکھیں۔ میں مانتا ہوں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی ہے حکومت کی پالیسیاں سخت ہیں، مگر ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لئے تمام بُرے حالات سے مقابلہ کرنا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے اللہ نے فرمایا ہے کہ ”ہر مشکل کے بعد آسانی ہے“ تو پھر ہمیں ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم دو باتوں کا خیال کریں۔ کوالٹی اور مقابلہ کرنے میں بہترین یعنی Compitator ہوں تو پھر ساری دنیا تمہاری ہے۔ ندیم مظہر آرگنائزر نے اعوان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں مہمان خصوصی جناب خالد محمود رسول کو گفتگو کی دعوت دی اور ان کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ خالد محمود نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد درجن سے زائد ٹریننگ کورسز پاکستان اور بیرون ملک سے کئے۔بعد ازاں ٹریننگ کورسز کرواتے بھی رہے۔ 43برسوں سے مارکیٹنگ اور مینجمنٹ کے دشت کی سیاحی میں 30/35ملک کے دورے کئے اور انہیں بار بار جانے کے مواقع ملتے رہے۔ آج کل وہ ماسٹر ٹیکسٹائل انڈسٹری لمیٹڈ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ خالد محمود رسول نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ چائنہ اس وقت ٹیکسٹائل Productsکی ایکسپورٹ اور مشینری کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے یہ جو اپٹما انٹرنیشنل ٹیکسٹائل مشینری کی نمائش ہے یہ ہر دو سال بعد دنیا بھر کے مختلف بڑے شہروں میں ہوتی ہے۔یہ نمائش شنگھائی چائینہ میں ہو رہی ہے اس میں پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ ہم جائیں ہم کیونکہ ایک خول میں بند رہتے ہیں اور ہمیں موقع نہیں ملتا لہٰذا ایسے مواقع غنیمت ہوتے ہیں۔ وہاں جا کر آپ پوری دنیا کو دیکھتے ہو کہ ٹیکنالوجی میں کیا کیا دستیاب ہے اور فیوچر ٹیکنالوجی کون کون سی ہے اور نیو ڈویلپمنٹ کون سی ہے۔ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، تائیوان اور چین نے جو سب سے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور Growth بھی کی ہے انہوں نے Finishing Product سے کمایا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں کچھ ترقی ہوئی ہے پاکستان کا جو گارمنٹس میں شیئر 60فیصد ملاہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے پاکستان کو اب اپنے زیادہ فائدہ کے لئے Finish Goodsکی طرف جانا چاہیے۔ جس میں ہر طرح کی گارمنٹ میں ہے۔ بنگلہ دیش، تائیوان، ترکی کی کامیابی اسی میں ہے کہ ان کی توجہ Finishing Goods یعنی تیار گارمنٹس کی طرف بہت زیادہ ہے اگر آپ نئی ٹیکنالوجی نہیں اپناتے دنیا میں جس قدر مقابلہ ہے آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔