نواز شریف اور ایٹمی پاکستان

 نواز شریف اور ایٹمی پاکستان
 نواز شریف اور ایٹمی پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو1974ء کے وسط میں  ہالینڈ سے ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا خط موصول ہوا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے لکھا کہ انہوں نے میٹرالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ یورینیم افزودگی میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور فلزیات کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ جناب بھٹو نے سفارتی اور خفیہ اداروں کے ذریعے ڈاکٹر خان کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کی روشنی میں انہوں نے ڈاکٹر خان کو پاکستان آ کر ملاقات کرنے کو کہا۔ دسمبر 1974ء میں ڈاکٹر خان کراچی آئے۔ پھر اسلام آباد میں بھٹو سے تفصیلی ملاقات کی۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ سات سال میں وہ اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ جناب بھٹو کو ڈاکٹر خان کی صورت میں اپنا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آیا، کیونکہ جناب بھٹو 1958ء سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک تھے۔ جناب بھٹو جن کی سوچ آنے والے سو سالوں کے لئے تھی کو خوب معلوم تھا اور وہ اکثر اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے کہ پاکستان کے لئے ایٹمی طاقت کا حصول ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور بھارت جیسا ازلی دشمن پلک جھپکتے میں ہم پر جنگ مسلط کر دے گا۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر قدیر کو اپنے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ ڈاکٹر خان ایک سال کے لئے واپس ہالینڈ چلے گئے اور وہاں سے ہدایات جاری کرتے رہے، مگر حسب روایت وہی ہوا کہ ایٹمی پروگرام کا منصوبہ ایک ایسے الیکٹریکل انجینئر کے حوالے کر دیا گیا جو یورینیم افزودگی کے متعلق کچھ بھی نہ جانتا تھا۔ ڈاکٹر خان اس بات پر کافی رنجیدہ ہوئے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے دوبارہ ملاقات کر کے منصوبہ سازوں کی نااہلی کے بارے میں صاف صاف بتا دیا اور ساتھ ہی واپس ہالینڈ جانے کی بری خبر بھی جناب بھٹو کو بتا دی لیکن جناب بھٹو کسی صورت میں ڈاکٹر خان کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔ آخر ڈاکٹر خان نے واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ڈاکٹر خان سے کہا کہ وہ پاکستان رہ کر ہی کام کریں اور انہیں ایٹمی توانائی کمیشن کا مشیر مقرر کر دیا، لیکن کچھ ہی دنوں بعد ڈاکٹر خان نے محسوس کیا کہ یہاں صرف زبانی جمع خرچ اور کاغذی کارروائیاں ہی ہوتی ہیں اورشدید مایوسی کا اظہار کیا۔ جناب بھٹو کو ایک دفعہ پھر پتہ چلا کہ ڈاکٹر خان بیرون ملک جانے کا سوچ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر خان کو بلایا اور 31 جولائی 1976ء کو وزارت دفاع میں ڈاکٹر قدیر کی براہ راست نگرانی میں کہوٹہ پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔

مارچ 1977ء میں اس پراجیکٹ پر تعمیراتی کام شروع کیا گیا لیکن چند ہی مہینوں کے بعد جناب بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا، مگر خدا کا شکر ہے کہ آنے والے فوجی حکمرانوں نے ایٹمی پروگرام کے سلسلے کو جاری رکھا۔ جناب ڈاکٹر قدیر خان نے جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کی جان بخشی کی اپیل بھی کی، مگر جناب بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی دے کر ہمارے دشمنوں نے جناب بھٹو کو ایٹمی پاکستان بنانے کی سزا دی۔ جناب بھٹو کی پھانسی کے ایک ہفتے بعد جب ڈاکٹر خان کی ملاقات جنرل ضیاء الحق سے ہوئی تو جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ایک ایٹمی سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے وکیل بھی ہیں، لیکن ڈاکٹر خان خوب جانتے تھے کہ اگر جناب بھٹو انہیں مجبور نہ کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتے تو اس وقت پاکستان میں نہ ہوتے۔ ڈاکٹر خان کو فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے لئے جناب بھٹو کی کوششوں کا بخوبی علم تھا جناب ذوالفقار علی بھٹو تو چلے گئے، مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بعد کے برسوں میں آہستہ آہستہ وہ کر دکھایا جو جناب بھٹو کا خواب تھا۔ اور پھر جناب میاں نواز شریف کے 28 مئی 1998ء کو 5 کامیاب ایٹمی دھماکوں کی خوشخبری سنانے کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ خاکسار اس وقت بطور سربراہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور تھا۔ مجھے ابھی تک جناب میاں نواز شریف کا قوم سے کیا گیا دبنگ خطاب یاد ہے جس میں انہوں نے بیرونی قوتوں کے بے پناہ دباؤ، لالچ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چاغی بلوچستان میں 5 کامیاب ایٹمی دھماکوں کا اعلان کر کے ازلی دشمن بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

آج جب میں یہ کالم اپنے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں تو یہ شہید ختم نبوت جناب ذوالفقار علی بھٹو، محسن ِ پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور فخر پاکستان جناب میاں نواز شریف کی محنتوں کا ثمر ہے ورنہ میں کسی نریندر مودی کا چپڑاسی ہوتا یا پھر آر ایس ایس کے بلوائیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا یا، پھر آج پاکستان بھوٹان، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش کی طرح ہندوستان کی طفیلی ریاست ہوتا ویسے کوئی مانے یا نہ مانے ہم بڑے بے قدرے اور محسن کش لوگ ہیں۔ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ نہ پوچھئے۔ تاریخ گواہ ہے، فخر ایشیا جناب ذوالفقار علی بھٹو ہوں، محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر ہوں یا جناب نواز شریف ان تینوں کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ یہ تلخ حقائق، کڑوا سچ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے کی سزا جوڈیشل مرڈر کی صورت میں ملی، جناب عبدالقدیر خان کو ہم نے پوری دنیا میں ہنسی کا گول گپا بنا دیا اور جناب نواز شریف کو نام نہاد کیسوں میں ایٹمی پاکستان بنانے کی سزا دے کر ملک سے باہر رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے۔28 مئی یوم تکبیر آ چکا ہے اور اس دن کے خالق میاں نواز شریف کا دیار غیر ہونا ہماری محسن کشی کی بدترین مثال ہے۔ ملک میں موٹرویز کا جال بچھانے، چائنا اکنامک کوریڈور کے بانی اور معیشت کو دوام بخشنے والے کو ہم نے کہاں پہنچا دیا ہے۔ آج ملک کی حالت سب کے سامنے ہے۔ منقسم پاکستان، ڈالر کی اونچی اڑان، پٹرول کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ اور مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ میاں نواز شریف تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد!
کاش، ہم ذاتی مفاد اور اپنے پیٹ کی غلامی کی خاطر قوم پر تاقیامت احسان کرنے والوں کے ساتھ ایسا ظلم عظیم نہ کریں، خدا کرے ہماری آنے والی نسل ملک بچانے والے اپنے اصل ہیروز کے چہرے پہچان لے پھر ہمیں آئی ایم ایف یا کسی اور تھانے دار کی ضرورت نہ رہے گی۔ اللہ کرے وہ وقت جلد آئے۔ آمین۔

مزید :

رائے -کالم -