کیا ہم بے صبری اور بے اعتباری قوم ہیں؟
پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک طرف ہم ایک انتہائی بے صبری اور بے اعتباری قوم ہیں اوپر سے اپنے اپنے مفادات کو ملکی مفادات سے مقدم رکھتے ہیں ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے یہی چاہتا ہے کہ بس میری بات ہی حرف آخر ہے۔
سڑکوں پر ہماری رفتار اور حرکات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کس قدر بے صبرے اور بے اعتبارے ہیں اسی طرح کسی بھی جگہ تھوڑی سی تکرار کے بعد لڑائی پر اتر آتے ہیں ہمارے ایوانوں سے نیچے تک کسی بھی جگہ مکالمہ کرنے کا دم نہیں ہے بات عام یا سادہ لوح عوام تک ہوتی تو بھی خیر تھی لیکن ہمارے تو حکمران، سیاستدان، فوجی سربراہان اور ججز بھی ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور جس کے پاس جتنا اختیار ہے اس میں اتنی ہی بے صبری ہے
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو ہم پاکستانی سیاستدانوں میں بڑا لیڈر مانتے ہیں مگر صبر کرنے میں وہ بھی ناکام رہے اور حکومت لینے کی جلدی میں فوری ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا دیا تھا۔ ہمارے فوجی جرنیلوں نے بھی جب جب مارشل لاء لگایا اس میں بھی جلد بازی یا ذاتی اقتدار کا لالچ نظر آتا ہے۔ 77 میں جب بھٹو صاحب اور پی این اے کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو چکے تو مارشل لاء لگا دیا گیا تھا ہارنے والے سیاستدانوں نے آج تک کسی بھی انتخابات کے نتائج کو درست تسلیم نہیں کیا ہے اور ادھر حکومت بنتی ہے ادھر اسے گرانے کی سازشوں کا آغاز ہو جاتا ہے حکومت سے نکالے گئے اور ہارنے والے سیاستدان ہمیشہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ہے اور ہمیں نکالنے یا ہروانے میں انہی کا ہاتھ ہے جبکہ حکومت اور ریاست کی طرف سے حزب اختلاف کو انتشاری ٹولہ یا مٹھی بھر شرپسند کہا جاتا ہے جن سیاستدانوں کو اقتدار ملتا ہے ان کا سبق فوجی صفحہ پر ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی منشور ہے نہ ان کی کوئی تنظیم ہے ہر جماعت کسی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر کھڑی کی جاتی ہے اور اس کے پیروکار اپنے علاوہ سب کی ہر بات کو غلط اور اپنے دیوتا کے ہر فرمان کو درست سمجھتے ہیں اور سیاسی مخالفین کو دشمن گردانتے ہیں ہم نے کبھی دو متحارب لوگوں کو کسی بھی معاملے یا مسئلے پر متفق ہوتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی طرف سے کسی معاملے پر متبادل تجاویز دی جاتی ہیں بس مخالفت برائے مخالفت چلتی ہے، ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ یہ جھوٹ بولا ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق ہے نہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی یا مخالف ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے آج تک کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ہو اور جب جب بھی سیاستدان ایک دوسرے کے قریب ہونے یا مکالمہ کرنے کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پیچھے سے کوئی تھپڑ ان کا رخ موڑ دیتا ہے آئی ایس پی آر کے چوہدری صاحب کی حالیہ پریس کانفرنس کو بھی اسی کی ایک کڑی سمجھا جا رہا ہے اور جان کی امان پا کر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اب جبکہ خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور سیاسی قوتوں کے بیچ مذاکرات کا آغاز ہوا تو فوجی عدالتوں کی طرف سے 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں دینے کی کیا جلدی اور ایک ایسی پریس کانفرنس کی ضرورت کیوں پیش آئی جس میں نام لئے بغیر ایک بڑی سیاسی جماعت پر الزامات کی پوچھاڑ کر دی گئی نہ صرف اس کے موجودہ خلاف قانون اقدامات کا بکس کھولا گیا بلکہ 2014 کے دھرنوں کو بھی کھینچ لایا گیا ہے کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہماری فوجی قیادت واقعی سیاستدانوں کے بیچ اتفاق اور اعتماد کی فضا نہیں چاہتی؟ اس سے پہلے جب محترمہ بے نظیر اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا تھا اسے بھی قبول نہیں کیا گیا تھا اور پھر اس کے آگے جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جس جماعت اور اس کی قیادت پر الزامات لگائے گئے ہیں اور 2014 کے جس انتشار کی بابت بات کی گئی ہے ان کو اس میں اپنی سابق قیادت کی طرف سے ڈالے گئے حصے کا ذکر کر کے اپنی طرف سے ہوئی غلطی کو بھی تسلیم کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس وقت کے تمام کھلاڑی واضح اعلان کر رہے تھے کہ ہمیں راولپنڈی کی حمایت حاصل ہے بلکہ یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ ہم نے انہی کی ایما پر یہ ا و دھم مچا رکھا ہے یہ تک کہا گیا کہ اب ایمپائر انگلی اٹھانے والا ہے اس وقت اس انتشاری ٹولے پر کوئی مقدمہ قائم ہوا نہ ان کے راستے میں کوئی کنٹینر لگا بلکہ ان کو وی آئی پی کنٹینر عنایت ہوا تھا لیکن آج جب عوام اسی لیڈر کے حق میں فیصلہ دے رہے ہیں تو وہ قبول نہیں ہو رہا؟
پچھلے دو برس میں آئی ایس پی آر کی طرف سے تسلسل کے ساتھ پریس کانفرنسیں منعقد کی جا رہی ہیں جن کا مرکزی نکتہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے انتشار پھیلانے کی تکرار اور عوام کو اپنی صفائیاں دینے پر مشتمل ہوتا ہے سوچنا چاہیے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ کیا کسی دوسرے جمہوری ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی فوج کی جانب سے اس طرح کی پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہو اور ایک طرف یہ یقین دہانی کروائی جاتی ہو کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دوسری طرف ایک سیاسی جماعت کے اوپر الزامات کی پوچھاڑ کر کے کہا جاتا ہو کہ اس انتشاری ٹولے سے مذاکرات نہیں ہو سکتے؟ جناب والا! ہم یہ سوال پوچھنے کا بھی حق رکھتے ہیں کہ ایک طرف آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ پر اس الزام کے تحت کورٹ مارشل کی کارروائی ہو رہی ہے کہ انہوں نے ایک سیاسی جماعت کی مدد کی یا یہ کہ سیاست میں مداخلت کر کے ادارے کی نیک نامی پر داغ لگایا تو دوسری جانب آپ برائے راست ایک سیاسی جماعت کے خلاف محاذ کھول کر اس کے مخالفین کی مدد کر رہے ہیں اس کو کھلا نہ سہی تضاد تو ضرور سمجھا جائے گا۔
حضور آپ سے زیادہ ہم عوام اس بات پر مضطرب ہیں کہ ہماری فوج اور عوام میں خلیج پیدا ہو چکی ہے اسے پاٹنے کی ضرورت ہے لیکن یہ کام بے صبری سے کرنے والا نہیں ہے اس کے لیے ہر دو طرف سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور مکالمہ کر کے اعتماد کی فضا پیدا کرنی ہوگی کیونکہ آپ کا مقابلہ کسی دشمن سے نہیں بلکہ اپنے عوام کے ساتھ بداعتمادی پیدا ہوئی ہے۔