سیاسی کارکن

   سیاسی کارکن
   سیاسی کارکن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

9 مئی کی سزائیں ان تمام لوگوں کے لئے ایک واضع پیغام ہے جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔سیاسی پروپیگنڈے اور زہریلے جھوٹ کا شکار بننے والے لوگوں کے لئے یہ سزائیں تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔

آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والا بیان بلاشبہ ان سیاسی کارکنان کے لئے ایک سبق ہے، جن کا مشن اپنے لیڈر کی اندھا دھند پوجا ہوتا ہے اور اس دیوانگی کا رزلٹ ہمیشہ ہی جیل یاترا کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔انتہائی کرب کی بات تو یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کے اکابرین کو معصوم کارکنان کے مقدمات لڑنے کے لئے وکیل کرنا تو دور کی بات، سیاسی کارکنوں سے جیل جا کر ایک بار بھی ملاقات کرنے کا وقت نہیں ملتا۔

کسی زمانے میں شہید ختم نبوت، فخر پاکستان  ذوالفقار علی بھٹو کارکنوں کو سینے سے لگاتے تھے، میاں محمد نواز شریف کا نام بھی کارکن لور میں آتا ہے، مگر فی زمانہ کوئی ایک لیڈر بھی نہیں، جس کا دِل کارکنوں کے لئے دھڑکتا ہو،اسی وجہ سے آج کل کے کاغذی لیڈروں کو اقتدار میں آنے کے لئے دوسرے سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن ہیں جو کے پی کے،پنجاب اور دوسرے صوبوں کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہ ہے، اگر سچ پوچھیں، مجھے تو پی ٹی آئی کے کارکنان کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے۔بتانے والے بتاتے ہیں، خیر سے ملٹری کورٹ میں ان کارکنوں کا دفاع کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے وکیلوں کی فوج ظفر موج میں سے ایک وکیل بھی پیش نہ ہوا۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے نہیں تھکتے کہ ملٹری کورٹ تھی تو کیا ہوا؟ملٹری کورٹ سے بھی وکلاء  نے بندے رہا کروائے اور تو اور کپتان کے بھانجے حسان نیازی،جنہیں دس سال قید کی سزا ہوئی، ان کو پی ٹی آئی کا نہ ہی کوئی اعلیٰ عہدیدار ملا اور نہ ہی کپتان نے کبھی اس بیچارے کا نام بھی لیا ہے۔

مجھے یہ ساری فلم دیکھ کر اپنا میڈیکل کالج کا زمانہ یاد آ گیا۔راقم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور کا صدر رہا،دو ران تعلیم ایک سیاسی جماعت کے صدر اور ایم ایس ایف کے کارکن کے درمیان لڑائی ہو گئی، اس مار کٹائی کی پاداش میں اس وقت کے پرنسپل پروفیسر عیص محمد نے ایم ایس ایف کے 11 ارکان کو کالج سے  دو سال کے لئے نکال دیا تھا۔میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے مسند پر فائز تھے۔ایم ایس ایف کے کارکنان نے اپنے تئیں  لوکل ن لیگی ایم پی اے سمیع اللہ چوہدری سے بات کی، بہاولپور سے لاہور آ کر ڈیوس روڈ پر واقع مسلم لیگ ہاؤس میں لیگی اکابرین سے ملاقات کی، سیکرٹری صحت اسماعیل قریشی سے ملے، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی حسن اختر موکل کے ان کی رہائش گاہ مال روڈ لاہور پر جا کر درشن کئے، مگر ٹکے کا فائدہ نہ ہوا۔

اللہ بخشے، باکمال،لاجواب، مخلصی، عاجزی و ایمانداری کی عمدہ مثال، فرشتہ صفت، انسان دوست شخصیت  مجید نظامی سے ان کے نوائے وقت دفتر میں شرفِ ملاقات حاصل کیا، اللہ پاک، ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔

انہوں  نے بڑے انہماک سے ساری بات سنی، ایک سینئر رپورٹر کے ذمے لگایا، نیوز روم میں طلباء کو چائے پلائی گئی اور اگلے دن فرنٹ پیچ پر طلباء کے کالج بے دخلی کی خبر چھپ گئی،اس خبر پر سی ایم نے نوٹس لے کر قائداعظم میڈیکل کالج کی انتظامیہ سے وضاحت طلب کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

آخرکار ایم ایس ایف کے کارکنان نے اپنی ہی پارٹی کی حکومتی بے رخی پر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔اللہ غریق رحمت فرمائے۔لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ کے جسٹس اللہ نواز نے کیس سنتے ہوئے پرنسپل میڈیکل کالج سے تاریخی مکالمہ کیا کہ طلباء  نے کونسا بندہ قتل کیا ہے؟ بچوں سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کو معافی دے کر ان کی صحیح تربیت کریں ناکہ ان کا مستقبل تاریک کر کے ان کو باغی بنا جناب جسٹس اللہ نواز نے طلباء کو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ دے کر سب کے دِل جیت لئے۔میں آج بھی جسٹس اللہ نواز کی دوراندیشی کو مس کرتا ہوں۔ان کے اس فیصلے نے بہت سے اعلیٰ پایہ کے ناصرف ڈاکٹر پیدا کئے،بلکہ وہ یہ بھی بتا گئے کہ ڈاکٹروں کا سیاست سے دور دور تک واسطہ نہیں ہونا چاہئے، ڈاکٹروں کا کام مریضوں سے شروع ہو کر مریضوں پر ختم ہونا بنتا ہے۔

کاش فی زمانہ ہمیں بھی ڈنڈا برداروں کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے والے افراد و سیاسی لیڈر میسر آئیں جو سیاسی کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہ کریں اور کارکنان بھی ہوش کے ناخن لیں، اس نسخہ کیمیاء کو اپنے پلے باندھیں۔

بڑے لوگ حکمرانی کا فن جانتے ہیں، وقت پڑنے پر امریکی بحری بیڑے کی طرح کبھی نہیں آتے،جس دن سیاسی کارکنوں کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ ہم نے سوشل میڈیا پر مخالفین کی گالم و گلوچ سے تواضع نہیں کرنی اور بنا سوچے، بنا دیکھے، لیڈروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر فوری اپنے ہی گھر کو آگ نہیں لگانی، ان کی جلسہ گاہوں کو نہیں سجانا، شہر میں بینر آویزاں نہیں کرنے، وال چاکنگ نہیں کرنی، ان کا آلٰہ کار بن کر جرائم کی دلدل میں نہیں پھنسنا، اپنے گھر کا چولہا خود ہی چلانا ہے، اس دن کوئی ماں،کوئی باپ، کوئی بیوی اپنے خاوند کے بچھڑنے پر نہیں روئے گی۔

خدا کرے۔ہماری سوشل میڈیا کی چمپئن،پڑھی لکھی نئی پود دیوانگی کی حد تک سیاسی شخصیات کی عبادت کرنے کے بجائے عقل و سمجھ بوجھ سے کام لیکر اپنی انرجی مثبت کاموں پر لگائے۔اُمید ِ واثق ہے۔مستقبل میں ہم 9 مئی کے کسی نئے سانحے سے بچ جائیں گے۔اللہ سیاسی کارکنوں کو سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔آمین

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -