وہی لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا ایک فضول اور بھونڈا فعل ہے، یاد رکھیے مصیبت کبھی کسی کی مددگار نہیں ہوتی

 وہی لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا ایک فضول ...
 وہی لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا ایک فضول اور بھونڈا فعل ہے، یاد رکھیے مصیبت کبھی کسی کی مددگار نہیں ہوتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:34
 وہی لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا۔ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کے علاوہ اپنی نقصان دہ اور ضررساں عادات کے متعلق دوسروں سے اظہار سے مراد یہ ہے کہ آپ مستقل طور پر اپنے وجود کے متعلق غیرمطمئن ہیں کیونکہ وہ آپ کے معاملے میں کچھ کرنے سے قاصر ہیں سوائے اس کے کہ وہ بھی آپ کے وجود میں موجود کمزوریوں اور خامیوں سے انکار کرتے ہیں اور آپ پھر بھی ان پریقین نہیں کرتے۔ اپنے بارے دوسروں سے شکایت کرنے سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، صرف آپ کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ لوگ آپ پر ترس اوررحم کھانے لگتے ہیں اور مصیبت تو کبھی کسی کی مددگار نہیں ہوتی۔ اپنے آپ سے ایک سادہ سوال پوچھنے کے ذریعے یہ فضول اور ناخوشگوار رویہ اور طرزعمل عام طور پرختم ہو جاتا ہے: ”آپ مجھے یہ سب کچھ کیوں بتا رہے ہیں؟“ یا ”کیا میں کسی طرح آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟“ اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھنے کے بعد آپ یہ محسوس کرنا شروع کر دیں گے کہ اپنی ذات سے شکوہ و شکایت پر مبنی آپ کا رویہ صریحاً بے وقوفی ہے۔ اس روئیے اور طرزعمل کو اپنانے میں جو وقت صرف ہوتا ہے، وہ وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جسے شاید کسی اور اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اسی وقت کو اپنی ذات سے محبت پر مبنی سرگرمیوں میں صرف کیا جا سکتا تھا یا پھر کسی شخص کی امداد کے لیے یہ وقت صرف کیا جا سکتا تھا۔
صرف دو مواقع ایسے ہیں جب دنیا میں اپنے بدن اور ذات کے متعلق شکوہ وشکایت کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ پہلا موقع وہ ہے جب آپ کسی کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ تھکے ہوئے ہیں اور دوسرا موقع وہ ہے جب آپ دوسروں کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ اچھے نہیں ہیں۔ اگر آپ تھکاوٹ کا شکار ہیں تو آپ اس کے لیے کئی طریقے آزما سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے بے چارے شخص سے شکایت کرنے کے ذریعے آپ اس شخص کو اپنی تھکاوٹ کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اس طرح آپ کی تھکاوٹ بھی کم نہیں ہوتی۔ یہی منطق آپ کے ”اچھا نہ ہونے کے احساس“ پر لاگو اورمنطبق ہوتی ہے۔
جب دوسرے افراد آپ کی معمولی طور پر مدد کر سکنے کے قابل ہوتے ہیں تو پھر آپ کے احساسات کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں درحقیقت نکتہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے سامنے آپ شکوہ شکایت کرتے ہیں، وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے اس طرزعمل کا مذاق اڑائیں۔ مزیدبرآں اگر آپ واقعی اپنی ذات اور اپنے بدن سے پیار کرتے ہیں اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف یا بیماری لاحق ہو جاتی ہے تو پھر آپ کو چاہیے کہ دوسروں کے پاس شکوہ شکایت کرنے کے بجائے اپنے روئیے اور طرزعمل میں تبدیلی کے ذریعے اس تکلیف اوربیماری کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔
اپنی ذات اور بدن کے متعلق شکوہ شکایت ایک فضول اور بھونڈا فعل ہے جو آپ کو ایک مؤثر اور کامیاب زندگی سے دور رکھتا ہے۔ اس کے باعث آپ میں اپنے لیے احساس ترحم پیدا ہوتا ہے اورآپ اپنی طرف سے دوسروں کے لیے محبت و چاہت کا اظہار کرنے اور دوسروں کی طرف سے ان کی محبت حاصل کرنے پر مبنی صلاحیت سے مکمل طو رپر ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مزید برآں، اس کے باعث خوشگوار اور محبت آمیز تعلق داری کے قیام میں رکاوٹ پیش آتی ہے اور آپ معاشرتی میل و جول سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اگرکبھی کبھار آپ اپنی ذات اور وجود کے متعلق شکوہ کر ہی بیٹھیں تو پھر آپ ا س کے متعلق اس تناظر میں سوچیں کہ اس کے باعث آپ کی زندگی تاریک سایوں کا شکار ہو رہی ہے اور خوشیاں آپ سے روٹھ رہی ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -