حکیم محمد سعید کی بحیثیت معالج خدمات

حکیم محمد سعید کی بحیثیت معالج خدمات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

از: حکیم راحت نسیم سوہدروی


شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی شخصیت ہمہ جہت ،عہد آفرین اور عہد ساز تھی ۔ان جیسا شخص صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے ۔مسلمانوں میں تو ویسے ہی قحط الرجال ہے اور ہم اُونچائی سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح ہیں جو زوال کی بستیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے ۔اب خدا ہی جانے حکیم محمد سعید جیسا نباض قوم وملت اور چمن کا دیدہ ور آئے گا اور کبھی آئے گا بھی یا نہیں اور قوم قعر مذلت میں ڈوبتی جائے گی ۔حکیم محمد سعید نے عملی زندگی کے بے شمار میدانوں میں بے مثال خدمات سر انجام دیں مگران کی زندگی کا بنیادی تشخص فن طب تھا ۔انہوں نے جس طرح طب مشرقی کے معالج کی حیثیت سے مریضوں کی خدمت کی، طب کو فروغ دیا اور دنیا بھر میں طب مشرقی کا بول بالا کیا اس پر وہ بجا طور پر ’’مجددطب‘‘قرار پائے ہیں ۔
حکیم محمد سعید 9جنوری 1920ء کو دہلی میں حکیم عبدالمجید کے ہاں پیدا ہوئے ۔ابھی دو سال کے تھے کہ والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے انکی تعلیم و تربیت اور سیرت کی تشکیل میں انکی والدہ محترمہ اور برادر اکبر حکیم عبدالحمید کا بڑا ہاتھ ہے ۔وہ ابتدا ہی میں ذہانت و فطانت کے حامل تھے ۔نو سال کی عمر میں قرآن حکیم حفظ کر لیا ۔انکا رجحان صحافت کی طرف تھا مگر برادر اکبر حکیم عبدالحمید کے مشورے پر طبیب بننے پر راضی ہو گئے ۔1936ء میں طبیہ کالج دہلی میں تعلیم طب کے لیے داخل ہوگئے اور فارغ التحصیل ہو کر 1940ء میں بحیثیت معالج زندگی کا آغاز کیا ۔9 جنوری 1948ء کو زندگی کے 28 سال گزانے پر دہلی کی مطمئن اور خوشحال زندگی چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی جسکے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے پاکستان کی ہجرت اس لیے اختیار کی کہ وہ مزاجاً ہندوستانی حکومت کے وفادار نہیں رہ سکتے تھے اور نئی مملکت اسلامیہ پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔‘‘
پاکستان آئے تو کش مکش حیات کا آغاز محنت و مشقت سے کیا ۔کراچی میں ایک پارسی سے بارہ روپے ماہوار پر کرائے کے کمرے میں مطب ہمدر دکا آغاز کیا اور اپنے برادر اکبر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے طب کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا اور طب مشرقی کے معالج کی عالمگیر شہرت پائی ۔انکا مطب مرجع خلائق بن گیا اور مطب ہائے ہمدرد کا سلسلہ پورے ملک میں دراز ہوتا گیا ۔ایک معالج کی حیثیت سے انہوں نے مطب کو صحت کا بنیادی مرکز بنا دیا ۔جہاں حکیم کا فرض تھا سب مریضوں سے یکساں نرمی کا سلوک کرے۔ہاتھ نبض پر رکھے ۔صحیح مرض کی تشخیص اپنے علم طب سے کرے اور صحت کے لیے دعا خدا سے کرے ۔وہ طبیب کا مطب میں باقاعدگی سے بیٹھنا اور مریضوں کو شائستگی سے دیکھنا اپنا فرض اوّلین سمجھتے تھے اور اسکی تربیت انہوں نے اطبائے ہمدرد کو بھی دی ۔انکے ہاتھ میں شفا تھی، اسے انہوں نے کراچی تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ پاکستان میں ہوتے تو ہر ہفتہ میں دو ایام کراچی میں باقاعدہ مطب کرتے جبکہ ہر ماہ کے پہلے ہفتہ دو دو یوم پشاور ،راولپنڈی اور لاہور میں مطب کرتے ۔وقت ملنے پر گاہے بگاہے دوسرے شہروں کوئٹہ ،فیصل آباد ،حیدر آباد ،ملتان ،سکھر وغیرہ بھی جاتے ۔پاکستان کے دو لخت ہونے سے قبل وہ ہر ماہ دو یوم کے لیے ڈھاکہ بھی جاتے اور عرصہ دراز تک سہ ماہی تین یوم کے لیے لندن بھی جاتے رہے ۔وہ کوشش کرتے کہ غیر ملکی دورے مطب کے ایام میں نہ آئیں ۔اگر کسی غیر ملکی دورے سے رات کو واپس آتے تو اگلی صبح مطب میں ہوتے۔ وہ وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے ۔گورنر سندھ کی خدمات انجام دیں مگر مطب کے معمولات میں کبھی بے قاعدگی نہ ہونے دی ۔ان کے مطب میں عمائدین مملکت،سیاستدان ،تاجر ،بیوروکریٹ،غریب اور امیر سبھی قسم کے لوگ آتے مگر وہ سب کو ایک ہی قسم کا پروٹوکول دیتے ۔وہ کہا کرتے تھے کہ طب ایک فن شریف ہے پیشہ ہر گز نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی کسی سے فیس نہ لی ۔ان کا معمول تھا کہ صبح نماز فجر سے مطب کا آغاز کرتے اور تقریباً عصر تک تا اختتام مطب کرتے، دن بھر میں کوئی ڈھائی تین سو مریضوں کی خدمت کا موقع ملتا ہے ۔مریضوں پر جتنی توجہ اور جتنی اہمیت حکیم صاحب دیتے تھے بہت ہی کم معالج اس طرح کے ہوں گے ۔مریض ان سے حال کہہ کر مطمئن ہو جاتا اور صحت یابی کی پوری اُمید سے واپس آتا ۔کئی بار ایسا ہوا کہ اپنی طبیعت کی شدید خرابی کے باوجود انہوں نے مطب کیا۔باہر مریضوں کا رش ہوتا ،ہر کوئی ان سے ملنے کا خواہش مند ہوتا۔ حکیم صاحب اس سے بے نیاز پور ی یکسوئی سے معائنہ کرتے ۔پوری کیفیت سنتے اور مسکرا کر نبض دیکھتے اور نسخہ تجویز کرتے ۔دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی طویل نشست کے باوجود کبھی نہ تھکتے اور اُٹھتے وقت کبھی ان کے جسم دماغ اور شخصیت پر تھکن کے آثار نہ ہوتے بلکہ ہمیشہ تروتازہ اور ہشاش بشاش نظر آتے ۔وہ اس حدیث رسول مقبول ﷺکے مطابق مطب کرتے کہ ’’بہترین شغل انسانوں کی خدمت ہے‘‘۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ کم و بیش بیس سال تک میں نے لاہور میں ان کے طبیب پیشی کی حیثیت سے کام کیا۔وہ ہر ماہ کے پہلے جمعہ ہفتہ کو لاہور میں مطب کرتے بعد ازاں جمعہ کو چھٹی ہونے کی وجہ سے بدھ جمعرات کے دن ہو گئے کوئی چالیس سال تک انہوں نے لاہور میں مطب کیا، انکی آمد سے قبل مریضوں کی سہولت کے پیش نظر ٹوکن تقسیم کر دیئے جاتے مگر ان کے مطب میں پھر بھی ہجوم ہوتا ہے، میلے کا سا منظر ہوتا ۔اس روز دوسرے اطباء مطب نہ کرتے ایک تو کوئی ان سے معائنہ کیلئے تیار نہ ہو تا، دوسرا حکیم صاحب کے ساتھ فرائض سر انجام دینا ہوتے تھے وہ جس روز مطب کرتے اس روز روزہ سے ہوتے۔
وہ طبیب شہر تھے جن کے ہاتھ میں شفا تھی انکی نظر مریض کی جیب پر کبھی نہ ہوتی ۔انہوں نے زندگی بھر کسی سے فیس نہ لی۔عموماً آسان مفرداتی نسخہ تجویز کرتے ۔ضرورت سے مرکبات بھی لکھتے ۔وہ مریض سے اس خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ مریض اپنا ذاتی دوست اور محسن سمجھنے لگتا ۔بارہا ایسا ہوا کہ کوئی نادار مریض آیا اس نے اپنی کہانی سنائی تو نسخہ پر دستخط کر کے مفت اور مالی امداد کا لکھ دیا ۔جب وہ کاؤنٹر پر گیا تو مفت دوا کے ساتھ مالی امداد پا کر حیرت زدہ رہ جاتا۔ وہ مریضوں کی تلخ اور دکھی باتیں سننے کے بعد بعض اوقات علاج بالمزاح بھی کرتے اور برموقع لطیفہ سنا کر روتے بسورتے مریض کو مسکرانے پر مائل کر لیتے۔وہ کہا کرتے تھے کہ
’’معالج کو روحانیت کی طرف مائل ہونا چاہیے اس طرح اس کے ہاتھ میں شفا ہوگی۔جب معالج کسی مریض کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے تو اس کی انگلیوں کے پروں سے شعاعیں (ریز)نکلتی ہیں جو مریض میں منتقل ہوجاتی ہیں اگر معالج پاکباز ہوگا تو شفا ہوگی ۔روس کی جدید تحقیق بھی یہی ہے‘‘۔
حکیم صاحب مطب کے دوران کسی اور کام کی طرف توجہ نہ دیتے بلکہ اگر کوئی کام یاد آجاتا تو اپنی نوٹ بک پر لکھ لیتے ۔کسی عطائی حکیم کا غلط نسخہ آجاتا تو کبھی اہانت نہ کرتے بلکہ نیا نسخہ لکھ کر دے دیتے اور ’’کہتے اللہ شفا دینے والا ہے‘‘۔
حکیم محمد سعید ان معالجین میں سے تھے جن کو قدیم طب اور جدید معلومات پر یکساں عبور تھا ان کا نسخہ قدیم دانش اور جدید معلومات کا حسین امتزاج ہوتا ۔وہ طب جدید اور سرجری کو کھلے دل سے قبول کرتے اگر کسی مریض کا ایلوپیتھی میں مؤثر علاج ہوتا تو اس سے رجوع کا مشورہ دے دیتے ۔انہوں کبھی کسی طریقۂ علاج جو اسوقت دنیا میں رائج ہیں کی مخالفت نہ کی بلکہ فرماتے تھے۔
’’انسانیت کو سکھ ملنا چاہیے بغیر کسی کو دکھ دیئے وہ سکھ کسی بھی طریقہ علاج سے ہو اس سے غرض نہیں ‘‘پھر کہتے ’’میں کسی بھی طریقہ علاج کو غلط نہیں کہتا البتہ طب کا اپنا ایک مقا م ہے‘‘۔
حکیم محمد سعید کا اہم کارنامہ اپنے مطب کو ریسرچ مطب بنا دینے کا ہے ۔ان کے مطب کی تحقیقات کا طرہ امتیاز یرقان ،ہیپاٹائٹس (مرض جگر)،السر معدہ وغیرہ ہے۔بحیثیت معالج 58 سال تک مطب کیا اور تقریباً چالیس لاکھ مریضوں کو مشورے دیئے جو ایک ریکارڈ ہے۔
حکیم محمد سعید معالج کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں ۔
’’طبیب کو مریض کی خدمت کیلئے ’ہائی اسپرٹ ‘ہونا چاہیے۔یہ اسپرٹ یاد الٰہی سے آتی ہے صبح تین بجے تہجد گزاری سے آتی ہے ۔تقلیل غذا سے آتی ہے قربانی سے آتی ہے سرمایہ محبت سے آتی ہے یہ چھٹی حس کے اجزاء ترکیبی ہیں‘‘۔
ایسا ہائی اسپرٹ والا طبیب جب مریض سے بات کرتا ہے تو روشنیاں کوندتی ہیں مرض ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتاہے اسے پہنچاننے کے لیے عقل اور آلات سے زیادہ روح فکر کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب روح فکر سماجاتی ہے تو اندرون جسم سامنے آجاتی ہے پھر یہی روح دواؤں کا انتخاب بھی کر دیتی ہے اللہ شافی ‘‘۔
حکیم صاحب پر اللہ کا خاص فضل تھا کہ آپ شب بیدار ،تہجد گزار ،انسانیت سے محبت کرنے والے ،قربانی دینے والے اور روزے کو محبوب رکھنے والے تھے ۔حکیم محمد سعید کو نونہالوں سے بہت محبت تھی جب کوئی نونہال مطب میں آتا اسکوگود میں لیتے اور ٹافیاں دیتے ۔انکی میز کے دراز میں ہمیشہ ٹافیوں کا پیکٹ ہوتا ۔ایک معالج کی حیثیت سے ان کے مطب میں جوانوں ،بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں کا رش ہوتا مگر انکی ہدایت تھی کہ بزرگ،بوڑھے اور معذور جو زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتے انکی اپنی باری سے قبل بھیج دیا جائے ۔یہ احترام آدمیت اور بزرگوں سے محبت کا ثبوت ہے ۔مطب سے انکی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ معین قریشی کے عبوری دورِ حکومت میں جب انکو پانچ سال کے لیے گورنر سندھ مقرر کیا گیا تو انتخاب کا عمل مکمل ہونے پر لکھ دیا’’کہ میں گورنر سندھ کی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے مریضوں کی بہتر خدمت نہیں کر سکتا‘‘۔
اور یوں تین ماہ بعد انکا استعفیٰ منظور کر لیا گیا مگر انہوں نے بحیثیت گورنر مریضوں کا معائنہ اور خدمت نہ چھوڑ دی۔
حکیم محمد سعید جو فن طب اور علم طب کی بیک وقت جامع شخصیت تھے انہوں نے اپنے اہم اور پیچیدہ مریضوں کا مکمل ریکارڈ محفوظ کر کے ’’تجربات طبیب‘‘کے نام سے افادہ عام کیلئے پیش کر دیا ۔جس میں مریضوں کے عام معروضی حالات امراض کی کیفیات و علامات ‘پتھالوجیکل رپورٹس ‘اصول علاج اور معالج کے اشارات شگفتہ زبان میں بیان کئے گئے ہیں جو قدیم نظریات اور جدید تحقیق کا حسین امتزاج ہیں ۔
اخلاق کو ہر شعبہ زندگی میں عنوان جلی اور مرتبہ لازمی حاصل ہے کہ اس کے بغیر عظمت اور رفعت کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے ۔تاریخ عالم کے ہر دور میں میدان طب میں اخلاق کا مؤثر کر دار رہا ہے اگر یہ کہا جائے تو بجا ہے کہ طب ‘طبابت اور اخلاق لازم و ملزوم ہیں اور اسکے بغیر حق طبابت ادا ہی نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ شفا مرض میں علم اور تجربہ کے علاوہ معالج کا اخلاق بھی اہمیت رکھتا ہے ۔حکیم محمد سعید بحیثیت معالج اخلاق کے اعلیٰ درجے پر تھے انہوں نے آواز اخلاق کی تحریک چلائی اور بحیثیت معالج جن مراحل سے گزرنا پڑا انکو اخلاقیات طبیب کے عنوان سے مرتب کر کے معالجین کی راہنمائی کر کے اہم خدمت سر انجام دی۔
معالج کا کام صرف علاج معالجہ ہی نہیں بلکہ تعلیم صحت بھی ہے تاکہ لوگوں کو افراض سے بچایا جائے ۔حکیم صاحب نے بحیثیت معالج یہ ذمہ داری بھی کمال طریقے سے پوری کی اور حفظ صحت کا شعور بیدار کرنے کے لیے تاریخ ساز کام کیا ۔وہ نونہالوں کو طبی امور پر ’’ہمدرد نونہال‘‘جبکہ بڑوں کو ’ہمدرد صحت‘کے ذریعے تحریری طبی و صحتی مشورے دیتے رہے ۔اپنے مشوروں میں طبی تدابیر کے ساتھ ساتھ صحت کی راہنمائی اور اخلاقی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی و فطری طرز زندگی کی طرف راغب کرتے ۔تحریر مشوروں میں آپکے زیادہ مریض نوجوان ہوتے ۔وہ انکو جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ وطن سے محبت کی طرف متوجہ کرتے ۔چہرے کی بدنمائی بارے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں۔
’’چہرے کی دلکشی کا دارومدار دوران خون کی باقاعدگی پر ہے اپنے جذبات پر قابورکھ کر اپنے چہرے کی دلکشی بڑھا سکتے ہو‘‘۔
ذرا غور فرمائیے دو فقروں میں کس حکمت سے ایسی بات بتا دی کہ جس سے بغیر دو اہم اپنے معاشرتی بگاڑ پر قابو با سکتے ہیں۔سگریٹ کی عادت ترک کرنے کے بارے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں۔
’’میرے نوجوان دو ستو اچھا ہے کہ تم سگریٹ نوشی ترک کر دینے کا دانشمندانہ فیصلہ کر لو۔ترک سگریٹ تم کو صحت مند رکھے گا تم ایک نشہ اور اسکے استعمال کے گنا ہ سے محفوظ ہو گے ۔مجھے تم سے محبت ہے اور اس محبت کا فرض ہے کہ میں تمہیں صحت مندانہ مشورہ دوں‘‘۔
انہوں نے صحت کا شعور عام کرنے کے لیے سپاہ صحت قائم کی ۔وہ کہا کرتے تھے کہ زمانے میں ہمیشہ صحت مند اقوام نے ہی سربلندی حاصل کی ہے اور تعمیر پاکستان کے لیے افراد ملت کی صحت لازمی ضرورت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رسائل و اخبارات سے نئے نئے امراض پر قلم اُٹھایا اور طب و صحت کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا اور بیشتر امراض کا سبب اخلاقی بگاڑ قرار دیتے ۔امراض ے بچاؤ کے لیے صحت کی معلومات پر اُردو میں تیس سے زیادہ کتابیں لکھیں جبکہ انگریزی میں بھی کتابیں لکھیں ’’ماہنامہ ہمدرد صحت ‘‘حفظ صحت کا شعور بیدار کرنے کے لیے آج بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔
حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کے سفر کئے مگر انکے سفر سیر و تفریح کے لیے نہیں بلکہ علم و حکمت کے لیے تھے وہ خود کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں جتنے بھی سفر کیے ان میں سے بیشتر طب کے لیے تھے۔ 1980ء میں وہ فن لینڈ میں ایک کشتی پر سوار ہو کر آٹھ دن گھومتے رہے۔انہیں تلاش تھی کہ دور دراز کے جزائر کے لوگ کن نباتات سے علاج کرتے ہیں، اس حوالے سے خود کہتے ہیں کہ
’’علم و حکمت کی تلاش میں انکے سفر اسلامی تہذیب کا اہم عنصر ہیں‘‘
حکیم محمد سعید کی ذات مطب ہمدر د کے اطباء کے لیے ایک انسٹیٹیوٹ کی سی تھی ۔وہ اپنے ماتحت اطباء کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتے اور کبھی احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ ان کے ماتحت ہیں بلکہ وہ انہیں رفیق اور عزیز قرار دیتے ۔کسی ہمدرد طبیب کا نسخہ آتا تو عموماً معمولی ردوبدل کر کے اس کا حوصلہ بڑھاتے۔
حکیم محمد سعید کی کوششوں سے طب کو عالمی اداروں میں کافی پذیرائی ملی، عالمی ادارہ صحت جس میں پہلی بار جانے پر انہیں فزیکلی نکال دیا گیا تھا اس نے طب کو تسلیم کر کے افریشیائی ممالک کو ہدایت دی کہ وہ اپنے مسائل صحت کے حل کے لیے اپنی صحت پالیسیوں میں روایتی طبوں کو شامل کر یں۔یونیسکو اور یونیسف نے طب کو موضوع فکر و تحقیق بنایا۔کویت میں شاندار طب اسلامی مرکز تعمیر ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ طب کو زبان العصر (سائنس) دیئے بغیر ترقی طب ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ دور علم و حکمت ہے اس میں عطائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ہر بڑے انسان کی طرح انہیں اپنی برادری اطباء میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑامگر وہ تو راہ حق کے مسافر تھے اور اس راہ میں ہر سنگ گراں کو نظر انداز کیا ۔وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ان اطباء کو علم نہیں ہے کہ دنیا میں طب کے حوالے سے کتنا کام ہو رہا ہے اور ہم کتنے پیچھے ہیں۔ہم میدان طب میں تحقیق کر کے اس کو فروغ دیکر اس میدان میں عالم عرب کی قیادت کر سکتے تھے مگر ہم نے یہ میدان بھی کھو دیا ۔طب مشرق کو جدید میڈیکل سائنس کے برابر لا کھڑا کرنا ان کا عظیم کارنامہ ہے جب وہ حکومتی حلقوں میں مایوس ہو گئے تو تعلیم طب کے میدان میں انقلابی تبدیلی خود ہی لے آئے اور ہمدر دیونیورسٹی میں طب کی ڈگری کلاسز کے اجراء کے لیے ڈگری کالج قائم کر دیا جس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ڈگر کورس کا اجراء ہوا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں اقدامات ہو رہے ہیں ۔طب کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے ایک سو تین کانفرنسوں میں مقالات پڑھے اور کئی عالمی کانفرنسوں کا اہتمام کیا ۔ہمدر دمیڈیکس کا اجراء کیا ۔طب کی نادر و نایاب کتب کے تراجم کرا کے شائع کئے۔ابن سینا کی الادویہ القلبیہ البیرونی کی الصیدیہ فی الطب ،ابن الہیثم کی المناظر ،ابن خنیفہ کی کتاب النباتات اہم ہیں۔وہ طب بارے وزارت صحت کے روئیے سے شاکی رہے اور واضح کہتے تھے کہ ہماری وزارت صحت ملٹی نیشلنز کے زیر اثر ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ طب دائرہ عطائیت سے باہر آئے ۔وہ لکھتے ہیں ۔
’’میں طب کا حامی ہوں اور طب کو درجہ سائنس دیتا ہوں ۔اب میں تنہا نہیں ہوں ساری دنیا طب کو درجہ سائنس دیتی ہے ،آوازہ طب جو پاکستان سے بلند ہوا اس نے عالمی تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے اور طب ساری دنیا میں موضوع فکر و تحقیق ہے‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ صحت اور تعلیم کے میدانوں میں انہوں نے بے مثال جدو جہد کی اور ان میں پھیلے ہوئے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے ہمہ وقت نبرد آزما رہے ۔انکی جدو جہد کا نتیجہ ہے کہ آج ساری دنیا ایک طب محفوظ کی تشکیل کے لیے سرگرم ہے ۔صرف طب ہی نہیں انہوں نے تعلیم اور تعمیر پاکستان کے لیے بھی بے مثال کام کیا ۔جامعہ ہمدرد اس کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے ،تعمیر اذہان ملت، نونہالوں کی تعلیم و تربیت،27رمضان المبارک یوم پاکستان، نونہال اسمبلی، آواز اخلاق، شام ہمدرد، لائبریوں کا فروغ اور ہجرہ صدی تقریبات و دیگر بے شمار تحریکوں کے ذریعے اپنے علم و فضل اورعزم و عمل کے انمٹ نقوش چھوڑے جن کی بناپر وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
تجھ کو روئیں گی آنکھیں جب تلک رو سکتی ہیں
تھم گئے آنسو تو بھڑکے گی وہ آتش جو ہمارے دل میں ہے

مزید :

ایڈیشن 1 -