فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر597
لقمان صاحب نے جب سہراب مودی کے ساتھ کام کا آغاز کیا تو وہ منروا کمپنی کے لیے بطور ہدایت کار فلم ’’صید ہوس‘‘ بنا رہے تھے۔ وہ اس فلم میں مرکزی ردار بھی ادا کر رہے تھے۔ نسیم بانو اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ ان کی والدہ شمشاد بھی اس فلم کے اداکاروں میں شامل تھیں۔
لقمان صاحب کو اس کمپنی میں سیٹنگ بوائے کی حیثیت سے ملازمت ملی تھی۔ تنخواہ بیس روپے ماہوار مقرر ہوئی تھی جو کہ اس زمانے کے حساب سے کافی تھی۔ لقمان صاحب کے ساتھ ہی اس زمانے میں حاجی محی الدین صاحب بھی منروا کمپنی کے آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ حاجی محی الدین بعد میں پاکستان آگئے تھے۔ آرٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہوں نے بہت شہرت حاصل کی۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر596 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس فلم میں ناتھنکر نامی ایک مرہٹہ نوجوان بھی کام کر رہا تھا جس کا اردو تلفظ اور لب و لہجہ بہت خراب تھا۔ لقمان صاحب کا تعلق چونکی دہلی سے تھا اسی دہلی سے جس کے بارے میں داغ نے لکھا تھا
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔
ناتھنکر کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو غلط تلفظ کی وجہ سے کام روک دیا گیا اور سہراب مودی نے مشورہ دیا کہ تم اپنی زبان درست کرو مگر دو تین دن کی شوٹنگ کے باوجود ناتھنکر صحیح اردو نہ بول سکا۔ اسی دوران میں ایک دن مودی صاحب نے لقمان صاحب کو ناتھنکر کو زبان کا تلفظ سکھاتے ہوئے سن لیا تو لقمان صاحب کی آواز اور لب و لہجے سے بہت متاثر ہوئے۔ ناتھنکر کو تو کاسٹ سے خارج کر دیا گیا اور سہراب مودی صاحب نے لقمان صاحب کو اپنے کمرے میں بلایا۔ ایک سیٹنگ بوائے کے لیے ہدایت کار کی طرف سے بلاوا بہت بڑی اور تشویشناک بات تھی لقمان صاحب ڈرتے ڈرتے سہراب مودی صاحب کے کمرے میں پہنچے تو باقی روداد ان کی زبانی سنیئے۔
’’میں ان کے کمرے میں پہنچا۔ ان کا ذاتی ملازم عبدل مجھے ان کے روبرو لے گیا۔ سہراب مودی بولے’’میاں اب ہم آپ کو میک اپ کروائیں گے اور آپ کی ٹرائی لیں گے۔‘‘
ہم نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے ہمارے میک اپ کا حکم دیا۔ ناتھنکر کے ساتھ اسٹیج کی ایک لڑکی شگوفہ کام کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہمیں کھڑا کیاگیا تو ہمارا قد اس سے چھوٹا نکلا لیکن یہ کمی ہمارے نیچے دو کتابیں رکھ کر پوری کر دی گئی۔ کیمرہ اسٹارٹ ہوا۔ ہم نے مکالمہ ادا کیا مگر ری ٹیک ہوا۔ ملازم بولا پھر ری ٹیک ہوا مگر تیسرا شارٹ او کے ہوگیا جس کے ساتھ ہی سہراب مودی کی نظر عنایت سے ہم اداکاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔ فلم بنی تو وہ فلاپ ہوگئی۔ اس کی کاسٹ میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میرا کردار پانچ چھ مناظر پر مشتمل تھا۔‘‘
اس طرح لقمان صاحب اور سہراب مودی کا ساتھ ہوگیا جو کافی عرصے چلا۔ اس زمانے میں اداکار وغیرہ سب اسٹوڈیو کے مستقل ملازم ہوتے تھے۔ تنخواہوں کا معیار بھی زیادہ نہیں تھا۔ اس بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ فلم ’’صید ہوس‘‘ کے ہیرو انیل کمار تھے انہیں بطور ہیرو ۳۵ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ معروف ترین ہریوئن کو سو ورپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ انیل کمارے کے بارے میں یہ سن لیجئے کہ وہ مسلمان تھے اور یوسف خاں (دلیپ کمار) کے رشتے دار بھی تھے مگر اس وقت تک دلیپ کمار ہندوستانی اسکرین پر نمودار نہیں ہوئے تھے۔
لقمان صاحب نے چند فلموں میں مختصر سے کردار ادا کیے مگر پھر سہراب مودی نے انہیں اپنے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے منتخب کر لیا۔ اس طرح ہدایت کاری میں لقمان صاحب کے پہلے استاد سہراب مودی تھے۔ اس کے بعد خوش قسمتی سے وہ سید شوکت حسین رضوی کے شاگرد بن گئے تھے۔ لقمان صاحب سہراب مودی کے چوتھے اسسٹنٹ تھے اور ان کا ابتدائی کام ’’کلیپ‘‘ دینا تھا۔
صید ہوس توفلاپ ہو چکی تھی۔ اس کے بعد اگلی فلم ’’نغمہ دل عرف آتما ترنگ‘‘ بھی بری طرح ناکام ہوگئی تو منروا فلم کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ منروا فلم کمپنی کے تین مالک تھے۔ ایک سیٹھ پونا والا، دوسرے ابراہیم سیٹھ ماچس والا اور تیسرے سہراب مودی۔ ان تینوں نے مل کر یہ فلم کمپنی اور اسٹوڈیو بنایا تھا اور فلم ’’صید ہوس‘‘ شروع کی تھی جس کے ہدایت کار اور اداکار سہراب مودی تھے۔ جب کمپنی کی دونوں فلمیں بری طرح فلاپ ہوگئیں تو یہ کمپنی دیوالیہ ہوگئی۔ اس سے چند روز قبل سیٹھ پونا والا کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کی فلمی صنععت میں یہ دستور تھا کہ سرمایہ کار اور بڑے بڑے سیٹھ سود پر فلم کمپنی والوں کو قرضی دیا کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے بھی وہاں یہ دستور تھا اور آج بھی ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے فلم ساز اور ہدایت کار فلمیں بنانے کے لیے اپنی گرہ سے کچھ نہیں خرچ کرتے تھے اور نہ ہی آج کرتے ہیں۔ سرمایہ لگانے والوں کو صرف اپنے سرمائے اور منافع کی واپسی سے سروکار تھا اس لیے وہ فلم ساز اور ہدایت کار کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے اگر سرمایہ اور منافع مل گیا تو یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔
اگر نقصان بہت زیادہ ہو جاتا تھا تو وہ کمپنی اور فلم ساز کے اثاثے اور جائیداد وغیرہ قرق کرکے اپنا قرض وصول کر لیتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کی فلمی صنعت میں یہ بنادی فقر ہمیشہ رہا اور آج بھی ہے۔ پاکستان کے فلم ساز فلم بنانے کے لیے کراچی، سندھ اور ڈھاکا کے تقسیم کاروں کے محتاج ہوا کرتے تھے(اب صرف پنجاب صوبہ سرحد کا ایک فلم سرکٹ اور کراچی سندھ بلوچستان کا دوسرا سرکٹ باقی رہ گیا ہے) فلم تقسیم کار اقساط میں رلا رلا کر طے شدہ رقم ادا کرتے تھے اور فلم سازوں کو اپنی مرضی کے مطابق فلمیں بنانے پر مجبور بھی کرتے تھے۔ اپنی بے بسی کے باعث فلم ساز ان کے خواہشات کے تابع تھے وہ اداکاروں کے انتخاب، کہانی کے موضوعات اور دوسرے معاملات میں بھی مستقل دخل اندازی کرتے رہتے تھے۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی چربہ سازی کے لیے بھی فلم تقسیم کاروں نے ہی فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو مجبور کیا تھا۔ ستم در ستم یہ کہ فلم مکمل کرنے کے بعد فلم ساز اپنی فلم تقسیم کار کے حوالے کر دیتا تھا۔ ساری آمدنی کا حساب کتاب تقسیم کار کے پاس رہتا تھا۔ وہ عموما فلم ساز کو نقصان ہی بتایا کرتا تھا فلم ساز بے بس ہو کر صبر کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاسکتان میں فلم ساز کبھی خوش حال نہیں ہوئے۔ ان کی محنت کی ساری کمائی تقسیم کار ہضم کرتے رہے اور اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔ فلم ساز ہر فل کے مکمل ہونے کے بعد پھر از سر نو نئی فلم سے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتا تھا اور منافع پھر تقسیم کار کے بینک میں پہنچ جاتا تھا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر598 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں