فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر598
پاکستان میں فلم سازوں کی ایک قسم اور بھی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو سرمایہ لے کر آتے ہیں۔ اپنی مرضی سے ہدایت کار اور فنکار منتخب کرتے ہیں اور فلم کی کامیابی کی صورت میں سارا منافع بھی خود حاصل کر لیتے ہیں۔ فلم اگر ناکام بھی ہو جائے تو یہ رو پیٹ کر کچھ عرصے بعد اپنی لاگت پوری کر لیتے ہیں۔ ان فلم سازوں کی نسل پنجابی فلمیں بنانے کے منصوبے لے کر فلمی صنعت میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پیسے کے بل پر فلمی صنعت پر ان کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ ان میں زمین دار، صنعت کار، سینماؤں کے مالک ، اسمگلرز اور غنڈے بدمعاش شامل تھے۔ لاہور آکر ہر بڑا بدمعاش فلم ساز بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ شاید ہی کوئی نامی گرامی بدمعاش باقی رہا ہو جس کے نام پر فلم نہ بنائی گئی ہو۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر597 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہماری فلمی صنعت کی موجودہ حالت زار کے ذمے دار یہی پیسے والے فلم ساز ہیں جو تعلیم و تہذیب سے ناواقف اور زمانے کے تقاضوں سے یکسر نا آشنا ہیں۔ یہ ایک ہی قسم کی کہانیاں اور ایک ہی قسم کی فلمیں بنائے چلے جا رہے ہیں۔ فلم فلاپ ہو جائے تو بھی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ تقسیم کاری کے باعث یہ کافی رقم کما لیتے ہیں اور اگر فلم ہٹ ہو جائے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیںَ۔ یہ ایک فلم سے کروڑوں روپے کما تے ہیں۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ، ذہین اور ہنر مند لوگوں کے پاس کئی کئی ہٹ فلمیں بنانے کے باوجود سرمایہ نہیں ہوتا جس کیو جہ اوپر بیان کر دی گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ ماحول اور غیر صحت مند فلم سازی سے تنگ آکر یکے بعد دیگرے فلمی صنعت سے رخصت ہوگئے۔ جب اچھے فلم ساز ہی نہ رہے تو اچھے تعلیم یافتہ اور ذہین ہایت کار، اداکار اور ہنر مند کہاں سے آئیں گے۔ اس طرح رفتہ رفتہ پاکستان کی فلمی صنعت صرف پیسے والوں کے تسلط میں چلی گئی۔ وہی فلم ساز ہیں۔ وہی سینما گھروں کے مالک ہیں۔ وہی تقسیم کار ہیں وہ اپنی مرضی اور پسند کی فلمیں بناتے ہیں اور اپنی ذہنی سطح کے مطابق بناتے ہیں۔ اپنے ہی جیسے لوگوں کو فلم یونٹ میں شامل کرتے ہیں۔ اب شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہماری فلمی صنعت کی موجودہ زبوں حالی اور تباہی کا سبب کیا ہے؟ جس قسم کے لوگ پیسہ لے کر آئے انہوں نے ویسی ہی فلمیں بنائیں جو آرٹ، ہنر اور شائستگی سے عاری تھیں۔ چنانچہ فلمیں صرف ایک محدود طبقے کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئیں۔ ماحول کی خرابی اور فلموں کے موضوعات اور بے ہودگی کے باعث شرفا ء اور ان کے گھروالوں نے سینما گھروں کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ آج کل کی فلمیں جو لوگ دیکھتے ہیں وہ خود بھی اپنے اہل خانہ کو سینما میں لے کر آنا پسند نہیں کرتے۔ فلموں کی کامیابی اور مقبولیت میں خواتین اور خاندانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوا کرتا تھا۔ اب پاکستان کی فلمیں اور سینما گھر ان کی سرپرستی سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضول اور بے مقصد فلموں کی مسلسل ناکامیوں کے بعد سینما گھر مسمار کیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں فلم اور سینما کا بزنس عروج پر ہے لیکن پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما گھر سکڑتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک درد ناک حقیقت ہے لیکن اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ صرف حکومت ہی مناسب قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے ذریعے اس بیماری کا علاج کر سکتی ہے مگر پاکستان میں کبھی کسی بھی حکومت نے فلمی صنعت کو اہمیت نہیں دی نہ اس پر مناسب توجہ دی۔ سرپرستی تو دور کی بات ہے مختصر الفاظ میں پاسکتان کی فلمی صنعت کی تباہی ان اسباب کا نتیجہ ہے۔
یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ سہراب مودی اور ہندوستانی فلمی صنعت کے حوالے سے یہ تذکرہ بھی ہوگیا لوگ اکثر دریافت کرتے ہیں کہ پاکستان کی فلمی صنعت میں سے اچھے ہنر مندا ور تعلیم یافتہ لوگ کیوں رخصت ہوگئے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کا یہ حال کیوں ہوگیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی وضاحت کے طور پر حقائق بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ اب سہراب مودی کا تذکرہ سنیے۔
منروا کمپنی کے دیوالیہ ہو جانے کے بعد تمام قرضے کا بوجھ سہراب مودی اور سیٹھ ابراہیم کے سر پر آن پڑا تھا۔ ان دونوں نے جیسے تیسے اس سے چھٹکارہ حاصل کیا۔ سہراب مودی نے کمپنی کے تمام قرضے اپنے ذمے لے کر اس کی ملکیت سنبھال لی۔ سہراب مودی اور ان کے دو بھائی رستم مودی اور کیکی مودی نے منروا مووی ٹون کے نام سے اس کمپنی کا از سر نو آغا کیا۔ خود اعتمادی، جرات اور سب سے بڑھ کر اس کام سے واقفیت کی بنا پر سہراب مودی اور ان کے بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ قدرت بھی ہمت والوں کا ساتھ دیتی ہے۔ سہراب مودی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اس کمپنی سے بہت منافع کمایا۔ فلمیں بھی بنائیں اور سینما گھر بھی تعمیر کئے یا خریدے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب منروا مودی ٹون اور سہراب مودی انڈین فلم انڈسٹری کے دو بہت بڑے نام تھے۔ ان کی بنائی ہوئی فلمیں بے پناہ کامیابی حاصل کر رہی تھیں اور سارے برصغیر میں ان کا چرچا تھا۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)