سعودی عرب میں محفل مشاعرہ کا اہتمام
جدہ (محمد اکرم اسد) انسان نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کیلئے زبانیں ایجاد کیں اور پھر ان زبانوں کے الفاظ کو ایک خاص آہنگ میں استعمال کرنے کا ڈھنگ ایجاد کیا، ایک خاص آہنگ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا سیکھا اور پھر اساتذہ نے اس کے قواعد و ضوابط بنائے، بحور ایجاد ھوئیں، قوافی اور ردیف کو شعر کیلئے لازم گردانا گیا۔
شعر عربی زبان کا لفظ ھے اس کے معانی کسی شے کے بارے جاننا واقفیت، یا پہچاننے کے ہیں شعور کا مادہ شعر ہی ھے۔
شعر اس موزوں کلام کو کہا جاتا ھے جو علم العروض کے معیار پر پورا اترتا ھو، جس میں دو مصرعے ھوتے ہیں اور مصرعِ ثانی میں قافیہ اور ردیف ھوتی ھے، دوسرے الفاظ میں شعر وہ موزوں کلام ہے جس کے ذریعے شاعر اپنے جذبات و احساسات کو پیش کرتا ھے۔
ہر زمانے میں انسان نے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے شاعری کو ذریعہ بنایا ھے لہذا غالب و میر و انیس و دبیر کے نقشِ قدم پر چلتے ھوئے دورِ حاضر کا شاعر بھی شعر کو اظہار کیلئے استعمال کر رھا ھے، اچھے شعر کی نقاد اور دانشور یہ بھی تعریف کرتے ہیں کہ جو دل سے نکلے اور دل میں اتر جائے۔
شعرا کے اسی قبیلے کا ایک جری جب عروس البلاد جدہ تشریف لایا تو عاشقانِ غزل و نظم نے ان کیلئے ایک خوبصورت محفلِ۔ مشاعرہ کا اہتمام کیا۔
گزشتہ دنوں کینڈا سے معروف شاعر، نقاد، محقق اور دانشور ڈاکٹر تقی عابدی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے مملکت تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں عالمی حلقہء فکروفن جدہ اور کبابش آرٹس کونسل جدہ کے زیر اہتمام ایک پروقار محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
محفلِ مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد نے فرمائی جبکہ مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی صاحب تھے۔
مشاعرہ کی نظامت صدر کبابش آرٹس کونسل اور عالمی حلقہء فکروفن کے صدر معروف شاعر آفتاب ترابی نے کی۔
تلاوتِ قرآن کی سعادت قاری شبیر صاحب نے حاصل کی جبکہ ہدیہء نعت جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی اور جناب محمد سلیم نے پیش کیا۔
مشاعرہ سے پہلے جناب ڈاکٹر نعیم حامد علی الحامد کی کتاب “بہار ایجادی بیدل”کا اجراء بدست محترم ڈاکٹر سید تقی عابدی ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے بیدل پر ایک پرمغز اور تحقیقی مکالمہ پیش کیا اور بیدل کی شاعری ، ان کا بچپن اور ان کے حالاتِ زندگی پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، انہوں نے ڈاکٹر محمد اقبال کا حوالہ دیتے ھوئے فرمایا کہ علامہ بیدل کو مردِ کامل مانتے ہیں اور اقبال نے بیدل سے بہت استفادہ و فیض حاصل کیا ھے۔
اس کے بعد مشاعرے کے دور کا آغاز ہوا، ناظمِ مشاعرہ آفتاب ترابی نے حسبِ روایت اپنے کلام سے ابتدا کی اور سامعین سے خوب داد لی۔ اس کے بعد سید تاشفین مجاہد، فیصل طفیل، عمران اعوان اور وحید القادری عارف، مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی اور آخر پر صاحب صدر جناب ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد نے اپنا خوبصورت کلام پیش کیا اور سامعین سے بےساختہ داد و تحسین حاصل کی۔ سامعین نے ہر شعر پر شعرا ء کرام کو بھر پور داد سے نوازا۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی نے فرمایا کہ جدہ کے شعراء کو سماعت کرنے کے بعد مجھے خوشگوار حیرت ھوئی کہ جدہ میں بہت اچھا شعر کہا اور لکھا جا رھا ھے آج ان شعرا ء کا کلام سننے کے بعد میں مطمئن ھوں کہ غزل اور شعر کا مستقبل بہت روشن ھے ہمارے بعد ایسے ہونہار نوجوان عروسِ غزل کی زلفیں سنوارنے کیلئے موجود ہیں۔
صاحبِ صدر نے خطبہء صدارت میں کہا کہ نوجوان نسل کو جدت کے ساتھ ساتھ روایت کا دامن بھی تھامے رکھنا ھے اور اپنے معاشرے کی اصل تصویر اپنے اشعار کے ذریعے پیش کرنی چاہیئے، شاعر کا یہ فرض ھے کہ وہ اپنے دور کے مسائل اور حالات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر پیش کرے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ھوئے معاشرے کی اصلاح کرے اور شعور و آگہی کو عام کرے۔
کبابش آرٹس کونسل جدہ کے چیئرمین جناب علی خورشید سلطان نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا کہ وہ اپنے والدِ محترم ملک خورشید سلطان کے لگائے ھوئے پودے (کبابش آرٹس کونسل )کی آبیاری کرتے رہیں گے اور ادب کی ترویج و ترقی کیلئے بساط بھر کوشش جاری رکھیں گے۔
مشاعرہ میں پاکستانی کمیونٹی اور انڈین کمیونٹی کے سرکردہ معززین نے بھر پور شرکت فرمائی اور مشاعرہ کو یادگار بنا دیا۔
محفلِ مشاعرہ کے اختتام پر سرد موسم کی مناسبت سے مہمانوں کی تواضع فش تکہ اور مختلف انواع کے لذیذ کھانوں سے کی گئی آخر پر کشمیری سبز چائے پیش کی گئی، اس طرح رات گئے یہ خوبصورت مشاعرہ اختتام پذیر ھوا۔