وہ محبتوں کا، یاریوں کادور تھا، اب ویسی شراتیں رہیں نہ مذاق برداشت کرنے کے حوصلے،ممی ڈیڈی بچے  برگر کھاتے اور برگر جیسے ہی مذاق کرتے ہیں 

وہ محبتوں کا، یاریوں کادور تھا، اب ویسی شراتیں رہیں نہ مذاق برداشت کرنے کے ...
وہ محبتوں کا، یاریوں کادور تھا، اب ویسی شراتیں رہیں نہ مذاق برداشت کرنے کے حوصلے،ممی ڈیڈی بچے  برگر کھاتے اور برگر جیسے ہی مذاق کرتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:130
ٹور کی آخری رات عظمت بھائی نے لاہور آنے سے پہلے مینگو سکوائش میں نیند کی کئی گولیاں پیس کر ملائیں۔ گرمی کے موسم میں اکبر اور میں نے پہلے ددو گلاس پیئے اور جاوید اسلم نے بعد میں۔ بعد والے گلاسوں میں نیند کی گولیاں کا اثر زیادہ تھا وہ ایسا سویا کہ اگلی صبح ہی اٹھا۔قیصر بھائی البتہ اپنی محبت اور پیار سے ایسے کسی بھی مذاق کا حصے نہ بنے۔وہ با کمال انسان ہیں۔ شریف، جہاندیدہ، بہت اچھے کھلاڑی تھے اور ہم سب کے لئے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے۔ واہ واہ کیا باتیں ہیں جو ذھن کے حافظے سے قلم کی نوک پر ایک ایک کرکے اترتی جا رہی ہیں۔ وہ محبتوں کا، یاریوں کا، دید مرید کا دور تھا۔ اب تو نہ ویسی شراتیں رہیں، نہ مذاق برداشت کرنے کے ویسے حوصلے رہے۔ اب ایسی شراتوں کا کم کم ہی سوچا جا سکتا ہے۔اب تو ممی ڈیڈی بچے ہیں جو برگر کھاتے برگر جیسے ہی مذاق کرتے ہیں۔ایسی ہی یادوں میں فیصل سے ٹکرا کر میرے گھٹنے کی dislocation  اور کھیتوں میں گھسی گیند کی تلاش بھی شامل تھی۔(کر کٹ سنٹر گراؤنڈ کے ایک جانب کھیت تھے جن میں برسین کا شت کی جاتی تھی۔ گیند کھیت میں چلی جاتی تو ڈھونڈنے میں کبھی دیر ہو جاتی تو بلے باز دوڑ کر کبھی 5 رن بھی بنا لیا کرتے تھے اور کبھی رن آ ؤٹ بھی ہو جاتے تھے۔واہ واہ کیسی کیسی سچی حماقتیں تھیں ہماری۔) 
 کرکٹ سنٹر کے دوستوں کا گروپ آج بھی ہے۔ ہم مہینے دو مہینے کے بعد ملاقات کا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور مل کر ان سنہرے دنوں کو خوب یاد کرتے ہیں۔دوستوں کی محفلیں غم بھلانے، خوشیاں یاد کر نے کے بہانے اور شاید خود کو جوان رکھنے کی کوشش بھی ہوتی ہیں۔
ماموں جاوید کے چیمبر میں؛
ایل ایل بی کرکے میں عاطر محمود کے ماموں محترم جاید اقبال ایڈوکیٹ کے چیمبر میں عاطر کے ساتھ ہی وکالت شروع کی تھی۔گڑھی شاہو کی مشہور مولا بخش حویلی کی نکڑ پر ان کا چیمبر تھا۔(کبھی اسی حویلی میں بھائی خالد، جدو اور پاشا بھی رہتے تھے۔) میں موٹر بائیک اڑاتا ماڈل ٹاؤن سے زیادہ سے زیادہ 10 سے 12 منٹ میں گڑھی شاھو دفتر پہنچ جاتا تھا۔ اس دور میں ٹریفک بھی اتنی نہیں تھی اور پھر میں بائیک(اس دور میں ہنڈا125نیا نیا آیا تھا۔ میری والدہ نے مجھے یونیورسٹی جانے کے لئے 12500 روپے میں پیٹی بند سرخ رنگ کی موٹر سائیکل خرید کر دیا تھا۔ بھائی جان پاشا اور میں نے مخدوم کارپوریشن نزد لاہور ہوٹل سے بائیک خریدا تھا۔)بھی100کلومیٹر سے زیادہ کی رفتار سے ہی چلاتا تھا۔شام مقدمات کی تیاری کرتے اور اگلی صبح عدالت میں پیش ہوتے۔اس دور میں لائسنس لینا کوئی مشکل نہ تھا آپ کو قانون آتا ہو یا نہیں لائسنس مل جاتا تھا۔ مجھے بھی ایک آدھ ماہ میں وکالت کا لائسنس مل گیا تھا جس میں میری قابلیت کا کم اور سفارش کا زیادہ عمل تھا۔یہ سلسلہ شاید اب بھی ایسا ہی ہو۔ ماموں جاوید سمجھ دار، دھیمے مزاج کے، نفیس، ہنس مکھ اور محبت کر نے والی شخصیت تھے۔مجھ سے عاطر کی طرح ہی محبت کرتے تھے۔ ماشااللہ حیات ہیں۔ عاطر کے ذریعے ان سے رابطہ رہتا ہے۔ ایک روز میں ان کے ساتھ فیملی کورٹ میں پیش تھا۔ بچوں کی تحویل کا معاملہ تھا۔ ہم بچوں کے والد کی طرف سے تھے۔ سماعت سے قبل بچوں کی والدہ نے جج صاحب سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی جو اُسے مل گئی۔ اس کی بات میرے لئے حیران کن تھی۔ اپنے دونوں بچوں (ماشااللہ بڑے پیارے بچے تھے۔) کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی؛”جج صاحب! میرے دونوں بچے ابھی مر جائیں اگر ان کے باپ نے آج تک ان کے خرچے کے لئے ایک آنہ بھی دیا ہو۔“ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔ سماعت اگلی پیشی تک ملتوی ہوئی لیکن میری وکالت پوری ہو گئی۔ شام کو دفتر آیا اورجاوید ماموں سے کہا؛”ماموں مجھے وکالت نہیں کرنی۔میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ کوئی ماں اپنے بچوں کی قسم جھوٹی نہیں کھا سکتی ہے۔“ انہوں نے مجھے بہت سمجھایا مگر دل کھٹا ہو چکا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -