میری زندگی میں میری مرضی اہم ہے

میری زندگی میں میری مرضی اہم ہے
میری زندگی میں میری مرضی اہم ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج کل سوشل میڈیاپرعورت اورمرد کی بحث عروج پر ہےجسکا گھریلو یامظلوم عورت سےکوئی لینادینانہیں جو روزانہ اپنی روٹی کی چکی میں پس رہی ہے اور ریاست اس سے یا تو بے خبر ہے اور یا باخبر  لیکن مصلحتاً خاموش ہے۔ ‏مرد اور عورت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں،دونوں لازم و ملزوم ہیں،دنیا کے تمام چارٹر، انسانی حقوق کے کنونشن ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے کا سبق دیتے ہیں۔اسلام نے بھی خواتین کا ماں بیٹی بیوی اور بہن کے روپ میں احترام کا درس دیا ہے اور وہیں باپ بھائی اور شوہر کے احترام کا بھی کہا ہے۔ایک دوسرے کا احترام کرکے جینے میں ہی عزت سکون اور برکت ہے،مرد اور عورت دونوں کے بغیر گھر مکمل نہیں،زمانہ بدل رہا ہے،میں تو فقط اتنا کہوں گا کہ ذہن بدلئے آگے بڑھئے اور گھر کی اہمیت کو سمجھئے اور اپنے گھر کو بچائیں۔بحث یہ نہیں کہ “میرا جسم میری مرضی “ نعرہ اہم ہے یا عورت مارچ ہونا چاہیے یا نہیں یا ٹی وی پر بیٹھ کر ریٹنگ کو اپنی بداخلاقی سےوالیوم کی طرح اوپرنیچےکریں اورایک دوسرےپرسبقت برتری یا برابری ظاہر کریں اور مصیبت کے مارے عوام کوایک اورٹرک کی بتی کے پیچھے لگا لیں؟اہم بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں ایدھی فاؤنڈیشن کو کچرے سے بچے اٹھانے پڑیں اور بڑھے بوڑھے ادھیڑ عمری میں بے یارو مددگار ہوں،اخلاق کےمعیاراورخواتین کےاستحصال کی حدیں اسلامی اقدارکےپاس بھی نہ پھٹکی ہوں وہاں کے معاشرے میں عوام اور حکمرانوں سے کوئی بھول تو ہوئی ہے۔

جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو خواتین گرچہ پچاس فیصد آبادی سے زیادہ ہیں لیکن انکا معاشرے میں کردار اس حساب سے سپورٹ نہیں کیا گیا۔ زمانہ قریب میں ایک صوبے میں تو انکو ووٹ تک نہیں ڈالنے دیا گیا،خواتین کی مخصوص نشستوں کے ذریعے انکی پارلیمان میں کمی کو پورا کیا گیا،کچھ گنے چنے ناموں کے علاوہ قومی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے،شہری علاقوں میں پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی نظام نےپروفیشنل پیداکئےہیں لیکن آبادی کےحساب سےتعداد کم ہے ۔گھریلو تشدد، تعلیم اور کام کے مواقعوں میں عدم مساوات،شادی کےلئےجہیز رسم و رواج ،شادی کےاخراجات اورشادی کےبعد کےلوازمات نےمعاشرے میں پائی جانے والی بیماریوں کی طرف توجہ دہائی ہے۔ کام کے دوران جنسی ہراسگی کی شکایات عام معمول ہیں،خواتین کو وراثت بچانے کے لئے گھر بٹھائے رکھنا یا قرآن سے شادی کروا دینا،وراثت سے پہلو تہی کرنا،جیتے جی انکو ان کےحق سےورغلاکر یاجذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے دستبردار کروالینابھی سکہ رائج الوقت کی طرح موجود ہے۔ کوئی ایسا واقعہ جس سے مرد کی نازک طبع یا اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہو،اس پرصرف عورت کومورودالزام ٹھہرا کرعزت کامسئلہ بنادینابھی ہمارے مشاہدے میں ہے۔ونی کرنا،جرگہ کے ذریعے سزائیں دینااورمعاملات کوعدالت کی بجائےعوامی عدالت کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہچانابھی مختاراں مائی اور سونیا ناز جیسے کیسوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے،ہم سن کافی عرصے سےرہےہیں لیکن ماں،بہن، بیٹی اور بیوی کےمعاملات پرریاستی خاموشی ہےاوراختیار زیادہ تراسکے ’’مرد “کےپاس گروی ہے،وقت بدل رہاہےریاست کو اس اختیار کو سوشل چارٹر کے ذریعےشئیرکرناچاہیے،جب تک تواختیار کا استعمال ٹھیک ہے تب تک ریاست کا عائلی معاملات میں عدم مداخلت کےاصول پرعمل پیرا ہونا کس مجھ میں آتا ہےلیکن ریاست کو چوکنا رہنا چاہیے کہ جیسے ہی سوشل چارٹر ٹوٹے قانون اور قائدہ حرکت میں آناچاہیےاورداد رسی میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔خواتین کے اصل مسائل کے حل کے لئے پلاننگ قانون سازی قلیل اور طویل مدت کے آگہی اور عمل کے منصوبے اور زہن سازی کے لئے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر مغرب میں ہر چھ منٹ میں ایک خاتون گھریلو تشدد کے ذریعے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے،ہرمنٹ گھریلو تشدد،جنسی ہراسگی،یامار پیٹ کے سینکڑوں نہیں تودرجنوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن مجال ہےکہ قانون نافذ کرنےوالےادارے شکایات کےنمبرزمیں رد وبدل کریں یا دخل اندازی کریں۔ پولیس ایمبولینس سروس ہسپتال ڈاکٹر عدالتیں اورمصالحاتی فورمز اس تشدد کاشکارعورت اورمرد کو یکساں تحفظ فراہم کرنےمیں کوئی کسرنہیں چھوڑتے، پیسے اگر نہیں ہیں تو فری قانونی مدد حاصل ہے،فری طبی معائنہ اور فری شیلٹرمہیاکرناپولیس اورسوشل سروسز کےمحکمے کی ذمہ داری ہے،اٹھے ہوئے ہاتھ کو روکنے کے لئے پولیس چارج کرکے ٹرائیل کرنے کی مجاز ہے، خاتون چاہے تو موقع دے سکتی ہے اور تنبیہ سے مسلہ حل ہو جاتا ہے،اگر ادارہ جاتی عدم تعاون ہو تو عدالت حکم امتناعی دینے میں دیر نہیں لگاتی اور اس سارے عمل میں ریاست ہر قدم پہ مظلوم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے،پیسہ معنی نہیں رکھتا سروس اور اس کی ڈیلیوری اہم ہے،ہم ابھی تک ’’مک مکا‘‘ سے نہیں نکل سکے اورستم ظریفی یہ ہےکہ ہرکوئی اسلام آباد میں نہیں رہتا،مارچ کااصل مقام وہ علاقےہیں جہاں غربت راج کرتی ہے اورمقامی بادشاہ کےخلاف چڑیا پرنہیں مارتی۔ راجن پور جائیں ، سکھر نواب شاہ، ژوب یا ہنگو جائیں یا جھنگ کے کسی گاؤں میں جاکر نشست سجائیں۔وگرنہ نشستاً، گفتن، برخاستن جیسی کئی نشستیں ،مقالے اورکانفرنسز روز ہوتی ہیں اور میڈیا دو دن بعد اور لوگ سات دن بعد بھول جاتے ہیں۔

میں نے برطانیہ میں پہنچ جانے والے اشخاص کےبھی لوگوں کے گھریلو تشدد کے ایسے کیسز دیکھے ہیں جن سے سوچ کی تنگ نظری عیاں ہے۔ دوسری شادی کرکے پہلی بیوی کو سڑک پر لانا، پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہی اور طبی مدد نہ لینے دینا، ڈاکٹر دوست یا رشتے دار کو ملنے نہ دینا،گھر میں سردی کے باوجود ہیٹر نہ لگانے دینا، ایک وقت کا کھانا کھانے نہ دینے، زچگی کے دوران کوئی مدد نہ کرنا اور آخری دن تک یہ سمجھنا کہ بچے کی پیدائش ایک عام واقعہ ہے، کام نہ کرنے دینا ، مارنا اور سی نہ کرنے دینا، نان نفقہ اور گھریلو تشدد کے باوجود طلاق کے حق سے محروم رکھنا۔ایسے سینکڑوں کیسوں میں جو بات روز روشن کی طرح واضح تھی وہ تھا معاشرتی ڈر ،قانون موجود تھا ، تحفظ تھا لیکن تحفظ لینے کے بعد کا ڈر، مالی معاشرتی ناہمواری کا ڈر،اہل خانہ اور چھوڑو چھوڑو کرنے والے گھر کے بڑوں کا ڈر جو بعد میں مظلوم کا ہی قصور نکال دیتے ہیں ۔ ان واقعات میں ریپ، جنسی ہراسگی، سگریٹ اور شراب نوشی کے بعد عادتاً تشدد کے واقعات شامل نہیں ہیں جن میں ریاست دخل انداز ہوکر بچوں کے تحفظ کے لئے ایکشن لیتی ہے۔نشہ اور اشیا ء ڈال دینا، ہاتھ جلا دینا، مار ہیٹ کے بعد دنوں تک قید رکھنا ، طبی مدد نہ لینے دینا تو زمانہ قدیم کے اعمال ہیں لیکن بدقسمتی سے آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ہم خواتین کے حقوق کو انکی آزادی سے کنفیوز کرتے ہیں،عورت اگر برقعے میں ہے تو بھی اسی آئین اور قانون کے تحفظ میں ہونی چاہئے جو ایک آزاد منش شہری پارلیمان کے باہر احتجاج کے ذریعے کلیم کرتا ہے۔ ہمارا اسلامی زکواۃ کا دینے اور اس کو مستحق لوگوں پر خرچ کرنے کا نظام اگر صحیح معنوں میں چلے تو ہم یہاں نہ ہوں جہاں ہیں۔ تعلیمی نصاب اور نظام میں یکسانیت کلاس کلچر کے بگاڑ کو ختم کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ خیراتی اداروں جیسے برنی ٹرسٹ ، عاصمہ جہانگیر اور عورت فاؤنڈیشن جیسے ادارے ضلعی سطحوں پر دستیاب ہونے چاہئے۔ شیلٹر ، گواہ کی حفاظت ، عدالت میں تحفظ ، شکائت کے بعد “صلح بریگیڈ “ اور “مٹی پاؤ” گروپ کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اگر نظام بروقت حرکت میں نہ آئے تو استحصال میں شریک ملزم ٹھرتا ہے اور اگر صرف نظر کرے تو غفلت کا مرتکب ۔ ہم اگر بچا نہیں سکتے تو ریاست کسی بھی شخص کو جانتے بوجھتے ایک ذی ہوش جان کو کسی کہ رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی اور اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بہت سا کام ادھورا ہے اور بہت سا کام ہوسکتا ہے اسکے لئے تن من دھن لگانے کی ضرورت ہے۔ عورت مارچ سے کچھ خواتین اسلام آباد کے شہری علاقوں میں ایک اچھا فنکشن کرنے کے بعد ایک ہفتہ اسکی تصویریں لگا لگا دکھا دکھا اس مسلے کی طرف توجہ تو ضرور دلائیں گی کہ عورت بھی معاشرے میں رہتی ہے اور اسکا حصہ ہے۔ کیا یہ اس خاتون کا کوئی مسلہ حل کر پائیں گی جس دیہی سندھ ، کوئٹہ نواح میں، دیہی پنجاب میں یا قبائلی علاقوں کی ایجنسیوں میں رہتی ہیں ، مجھے نہیں لگتا۔ مارچ کو دل پہ نہیں لگانا چاہیے ، کرنے دینا چاہئے ، ہونے دینا چاہئے لیکن نظر اصل مقصد پر ہونی چاہیے اور اسکے لئے جدوجہد چاہیے ، کام چاہیے ، نتائج چاہیے، قانون سازی اور زہن سازی چاہئے۔ عورت عائلی، مالی،تعلیمی، طبی اور معاشرتی لحاظ سے خوشحال ہوگی تو معاشرہ اور ملک ترقی کرے گا ، کسی طرح کی بھی گھٹن تمام اکائیوں کو متاثر کرتی ہے۔

مزاح کو سامنے رکھیں تو مرد بھی شفاعت کی طرح کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ‏میں دبلا رہوں یا موٹا، بال لمبے رکھوں یا چھوٹے، داڑھی رکھوں یا خط، پجامہ پہنوں یا جینز، ٹی شرٹ پہنوں یا ڈریس شرٹ، چشمہ پہنوں یا لینز ، یہ کسی اور کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے !کیونکہ۔۔۔۔ “میرا جسم میری مرضی “ ۔ گرچہ مزاح ہے لیکن بات صحیح ہے، ان سب آزادیوں پر دونوں صنفوں پر قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ عورت ایک ماں بھی تو ہے اور ماں، ماں ہوتی ہے اور اسکی کمی ساری دنیا کے خزانے پوری نہیں کرسکتے۔اللہ پاک سبکو اپنی ماؤں کی خدمت کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائیں۔ جنکی مائیں اس دنیا میں نہیں رہیں انکے نام پر صدقہ جاریہ اور صلہ رحمی کرنے کی استطاعت عطا فرمائیں۔مارچ ماہ بہارہے۔ مارچ ہوتے رہتے ہیں، ہوتے رہنے چاہیے۔ حقوق کی جنگ کے لئے جدوجہد دائمی ہے، مارچوں کی محتاج نہیں۔خواتین کے احترام انکے حقوق کی تحفظ کے لئے سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی، گھریلو تشدد جہیز ،تعلیم، ملازمت میں ہراساں کرنا، جائداد میں حق وغیرہ سب قومی سوچ میں تبدیلی چاہتے ہیں ،میری زندگی میں میری مرضی اہم عنصر ہے۔جسم پہلے سے ہی ایک پرائیویٹ مسلہ ہے۔ جسکا جسم اسی کی ہی مرضی ہے معاشرے نے اس پر ضابطے قوانین اخلاقی دائرےوضع کئے ہیں۔مغرب میں بھی آپ کھلے عام جسمانی نمائش کے حق کا استعمال ایک حد تک کرسکتے ہیں۔ دائمی اصول وہی ہی جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں آپکی حد ختم۔

بیرسٹر امجد ملک چئیرمین ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ ہیں جبکہ سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے تاحیات ممبر ہیں،وہ گھریلو تشدد کے کیسوں پر دسمبر 2000 میں انسانی حقوق کا قومی ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں ۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -