دسمبر آرگینک ہے۔۔۔
دسمبر آرگینک ہے
اگرچہ اپنی موسمی شدت میں تھوڑا پینک ہے
دسمبر آرگینک ہے دسمبر آرگینک ہے
دسمبر جب بھی آتا ہے
بڑی سوغات لاتا ہے
کہیں کنو کہیں گنے
کہیں گڑ بھی کھلاتا ہے
دسمبر آرگینک ہے۔ دسمبر آرگینک ہے۔
پراٹھے میں کبھی مولی
کبھی آلو کبھی گوبھی
کبھی ہے ساگ کو تڑکا
کبھی پالک کبھی میتھی
دسمبر آرگینک ہے ۔ دسمبر آرگینک ہے
ہوا یخ بستہ چلتی ہے
بدن کی قلفی بنتی ہے
کہیں قہوہ کہیں کافی
کہیں چاۓ ابلتی ہے
سجی چولھے پہ چینک ہے۔ دسمبر آرگینک ہے
وہ جیکٹ گرم ڈالی ہے
رضائی بھی نکالی ہے
گلے میں ڈال کے مفلر
گرم ٹوپی سجا لی ہے
اضافی ساتھ عینک ہے۔دسمبر آرگینک ہے
اگر تھوڑا سا بھاگے ہیں
نہ پیچھے اور نہ آگے ہیں
لگی تھی چوٹ گھٹنے پر
پرانے درد جاگے ہیں
سہارا ڈکلوفینک ہے۔دسمبر آرگینک ہے
کہیں پہ حلوہ پوری ہے
وہ دیسی گھی کی چوری ہے
کہیں گاجر کا حلوہ ہے
کہیں میٹھی کچوری ہے
کہیں اچھوانی صحنک ہے۔ دسمبر آرگینک ہے
کبھی ہیٹر میں مسئلہ ہے
کبھی گیزر میں مسئلہ ہے
کہیں پر گیس کی بندش
کہیں چولھے میں مسئلہ ہے
یہ کرتا سب مکینک ہے۔ دسمبر آرگینک ہے
یہ موسم آیا مچھلی کا
یہ موسم دیسی مرغی کا
کہیں پر سوپ انڈے اور
کہیں ٹھیلا ہے یخنی کا
یہ سارا ہائی جینک ہے۔ دسمبر آرگینک ہے
کہیں پر برف باری ہے
کہیں بارش بھی جاری ہے
کہیں بادل کہیں خشکی
کہیں پر دھند طاری ہے
یہ کتنا ڈائینیمک ہے ۔دسمبر آرگینک ہے۔
کلام :سبطین ضیا رضوی