نیا بلدیاتی نظام ،کیا آسانی سے تبدیلی آ جائے گی؟

نیا بلدیاتی نظام ،کیا آسانی سے تبدیلی آ جائے گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پنجاب کے لئے نئے بلدیاتی نظام کی منظوری دے دی اور اب منظور کی جانے والی حکمت عملی کے مطابق مسودہ قانون کی تیاری شروع کر دی گئی ہے جسے پنجاب اسمبلی میں پیش کرکے ایوان کی منظوری لی جائے گی۔ سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کے مطابق نئے نظام کا مقصد اختیارات کے ارتکاز کو ختم کرکے نچلی سطح تک تقسیم کرنا ہے اور اب نئے نظام کے تحت بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوجائیں گے اس سے ملک نچلی سطح تک ترقی کرے گا اور روزمرہ کے مسائل ساتھ ساتھ حل ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نئے نظام کے تحت میئر اور اداروں کے سربراہوں کے انتخابات براہ راست ہوں گے اور عوام ان کا انتخاب کریں گے اور یہ انتخابات بھی سیاسی بنیادوں پر ہوں گے۔پنجاب میں اس وقت جو بلدیاتی نظام رائج ہے وہ پرانے دور اور پرویز مشرف دور کا مرکب ہے۔ ہر مرتبہ یہ تبدیل کیا گیا اور اس کی جگہ دوسرا لایا گیا شکایات اور تحفظات جوں کے توں رہے۔ سینئر وزیر نے میڈیا کو جو کچھ بتایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیا نظام جنرل (ر) پرویز مشرف والے ضلعی حکومتوں، پرانے نظام اور برطانوی طریق کار سے مستعار لے کر بنایا جا رہا ہے اور قانون کی منظوری کے بعد موجودہ بلدیاتی ادارے توڑ دیئے جائیں گے اور نئے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ اس وقت پنجاب میں بلدیاتی اداروں میں واضح اکثریت مسلم لیگ (ن) کی ہے اور اس کی طرف سے مخالفت کی جا رہی ہے چنانچہ مسودہ قانون کو اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرانا مشکل کام ہو گا۔جہاں تک بلدیاتی نظام کا تعلق ہے تو یہاں کسی نظام کو چلنے ہی نہیں دیا جاتا جنرل ایوب اپنا اور جنرل پرویز مشرف اپنا اپنا قانون لائے تھے۔ تاہم یہ بھی برقرار نہ رہے اب پھر نیا نظام ہو گا۔ مخالفین کا الزام ہے کہ یہ سب جعلی اراکین کے خاتمے کے لئے بھی کیا جا رہا ہے اگرچہ ہر نظام میں جعلی اور غیر متعلقہ لوگوں کے پکڑے جانے کی نوید ہوتی ہے لیکن بار بار کی تبدیلیوں سے معاملات خراب ہوئے اور بلدیاتی ادارے مستقل شکل اختیار نہ کر سکے۔ اب بھی نئے نظام پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور بڑی حد تک بجا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پرانے دور میں رائج نظام ہی کو دیکھ کر اس کی کوتاہیوں کی پیش بندی کرلی جانی چاہیے، بہرحال اسمبلی میں حزب اقتدار اور مشترکہ حزب اختلاف کی تعداد میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں اس لئے مسودہ قانون کی منظوری بھی حکمت عملی سے ممکن ہو سکتی ہے۔یوں بھی سینئر وزیراختیارات کے حوالے سے جس نظام کی بات کرتے ہیں اس الیکشن پر بھی وہی لاگو ہوتے ہیں اور یوں جب عمل شروع ہو گا تو پھر اراکین اسمبلی ترقیاتی فنڈز کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن بھی تو ٹف ٹائم دے گی۔ بہتر یہ تھا کہ اس کے لئے حزب اختلاف سمیت سب کی رائے لے لی جاتی۔اب بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اور کر لینا چاہیے۔

مزید :

رائے -اداریہ -