جشن صوفی تبسم                (1)

   جشن صوفی تبسم                (1)
   جشن صوفی تبسم                (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صوفی غلام مصطفےٰ تبسم 7فروری 1978ء میں ملک عدم کو سُدھار گئے تھے صوفی تبسم کے بڑے بیٹے میرے والد گرامی پروفیسر صوفی گلزار احمد اس وقت میانوالی ڈگری کالج فار بوائز کے پرنسپل تھے۔اس زمانے میں وہ وہاں اتنے مصروف ہوتے کہ انہیں کبھی کبھار ہی لاہور آنے کا موقع ملتا۔اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود میرے والد نے صوفی تبسم کی پہلی برسی پر بہت سے ادیبوں،شاعروں کو گھر پر مدعو کیا اور صوفی تبسم آرٹ اکیڈیمی کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ صوفی تبسم کے تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام کو یکجا کیا اور ان کی شاعری کی کلیات ”سوبار چمن مہکا“ جس میں پنجابی، اردو اور فارسی کلام شامل ہے۔ مرتب کی اور شائع بھی کروائی۔ اپنے والد کے حوالے سے انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہمیشہ رہا وہ جب بھی لاہور آتے اپنے والد گرامی کے مضامین ڈھونڈنے کے لئے مختلف لائبریریوں میں پورا پورا دن گزارتے اور جو بھی مضمون ملتا اسے سنبھال لیتے۔ والد صاحب کی لاہور ٹرانسفر ہوئی تو ان کی زندگی آسان ہوئی تو بچوں کی غیر مطبوعہ نظموں جس میں ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں بھی شامل ہوتیں انہیں یکجا کرنے میں لگے رہے۔ بدقسمتی سے 1997ء میں والد صاحب کی بینائی اچانک ذیابیطس کی وجہ سے ختم ہو گئی۔ انہوں نے ساری زندگی لکھنے پڑھنے اور پڑھانے میں گزاری تھی بینائی جانے کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی کبھی انہیں اللہ سے شکوہ کرتے سنا وہ اپنے کام،اپنی عقل اور ذہانت سے بڑی آسانی سے کر لیتے تھے۔ ان کی بینائی جانے کے بعد راقم نے ٹوٹ بٹوٹ نظموں کی کلیات مرتب کی اور شائع کروائی اس کا نام تجویز کیا ”اب سب ہیں ٹوٹ بٹوٹ میاں“ اس کلیات میں صوفی تبسم کی بچوں کے لئے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ سب نظمیں شامل ہیں۔ میرے والد ریٹائرمنٹ کے بعد اور بینائی نہ ہونے کے باوجود بہت سے کام کرتے رہتے ان کا کلام کسی نہ کسی کو کمپوز کرنے کے لئے دے دیتے اور پھر پروف بھی پڑھنے کے لئے کسی کو دیتے رہتے۔ میں ان کی مدد بھی کرتی اور ان سے بہت کچھ سیکھتی بھی رہی۔ یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کی وجہ سے وقت کی قلت کا سامنا ضرور ہوتا اور والد محترم کو ہمیشہ میرا انتظار رہتا۔

1998ء میں والد صاحب کے اصرار پر میں نے صوفی تبسم آرٹ اکیڈیمی کو باقاعدہ سنبھالا اور اس کا لائحہ عمل تیار کیا۔ اغراض و مقاصد لکھے ادب آرٹ اور کلچر کے فروغ اور ترویج و ترقی کے لئے سوچا اور بڑے قابل اساتذہ سے مشاورت کی جن میں خاص طور پر اردو ادب سے محبت کرنے والے اور عاشقانِ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم،جناب پروفیسر ڈاکٹر مظفر عباس پرنسپل ایف سی کالج (اور جو ایجوکیشن یونیورسٹی میں بھی وی سی رہے) شامل رہے۔ انہوں نے اکیڈیمی کو روز افزوں ترقی کے لئے بے حد قیمتی مشوروں سے نوازا اور الحمرا میں ہر پروگرام میں بھابھی جان کے ساتھ آکر بے حد حوصلہ افزائی کرتے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے شوہر نے ہر معاملے میں میرا ساتھ دیا اور ہم نے مل کر اپنے بچوں کی تعلیم، گھر، پروفیشن کو بہت اچھے طریقے سے منظم کیا۔ صوفی تبسم اکیڈیمی کے تمام کاموں کو کامیابی کے ساتھ پایہء تکمیل تک پہنچاتے رہے۔صوفی تبسم پر کسی نہ کسی حوالے سے پروگرام کرتے،مذاکرے، مشاعرے، محفلِ مکالمہ، ڈرامے، ورکشاپس،بچوں کے لئے کلچرل پروگرام، نامور اساتذہ، ادیب شاعروں کے ساتھ ایک شام، ان کا کلام اور ان کی گفتگو سننا اور کسی نئے فنکار کو متعارف کروانا اور ان کا کلام سننا شامل ہے۔ پنجابی، اردو ڈرامے لکھنا اور سٹیج کروانا بچوں کے لئے پروگرام لکھنا طوطیا من موطیا، بھولا ان کلاس، سکھ سفنے، سُر، اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے ملک میں اور ملک سے باہر ڈیلی گیشن لے کر جانا بھی شامل رہا۔ ترکی گورنمنٹ کے ساتھ مل کر بچوں کے لئے پروگرام کی تیاری اور اسے الحمرا میں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کرنا،یہ ایک خوبصورت پراجیکٹ تھا جسے دونوں ملکوں کے عوام نے دیکھا اور پسند کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ صوفی تبسم کے نوادرات کو سنبھالا جو والد صاحب نے اپنی زندگی میں اکیڈیمی کے لئے دے دیئے تھے۔ صوفی تبسم کی کتابیں جو اُن کی لائبریری  میں تھیں ان کی وصیت پر 5000/-  سے زائد جی سی کالج یونیورسٹی کو دے دی گئیں جہاں گوشہء تبسم کا انعقاد کیا گیا  یہ سب کتابیں اساتذہ طلباء و طالبات کو صوفی تبسم کی یاد دلاتی ہیں باقی کتابیں آج بھی صوفی تبسم اکیڈیمی میں موجود ہیں جنہیں لائبریری کی صورت میں سکول کالج اور یونیورسٹیز کے اساتذہ طلباء و طالبات کے لئے کھولنے کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو صوفی تبسم کے نوادرات تک رسائی دینا بھی بہت ضروری ہے۔ اکثر غیر ممالک کے سفیر،قونصلیٹ، ڈائریکٹر صوفی تبسم اکیڈیمی کا دورہ کرتے ہیں اور ان کے نوادرات کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔

صوفی تبسم 4اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔وہ جب تک زندہ رہے اپنے دل سے امرتسر کی یاد نہ نکال سکے وہ اکثر اپنے دوست اور رشتہ داروں سے وہاں کی باتیں کرتے رہے اسے ناسٹیلجیا کہاجا سکتا ہے۔میری کیفیات بھی ہمیشہ سے ایسی ہی رہیں بچپن کی یادیں اور خاص طور پر دادا ابا کے ساتھ گزارے لمحات کبھی نہیں بھولے،یہی وجہ ہے کہ میں 4اگست ان کی سالگرہ کے دن کو ہمیشہ بڑی دھوم دھام سے مناتی ہوں اپنے دوستوں، شاعروں، ادیبوں اور گلوکاروں کے ساتھ 27سالوں سے صوفی تبسم اکیڈیمی میں مناتی آ رہی ہوں اس سال 4اگست 2024ء ان کی 125ویں سالگرہ تھی بہت سوچاکہ کیسے مناؤں ایسا کچھ کروں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں اور صوفی صاحب کی علمی،ادبی،قومی خدمات پر بات بھی ہو۔ پروفیسر نسیم شاہد سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ضرور مناؤ آپ یہ کر سکتی ہیں ہمت کرو ان کی سالگرہ ان کے شایانِ شان ہونی چاہیے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ہم جشنِ صوفی تبسم کا پروگرام بناتے ہیں اس میں صوفی تبسم کانفرنس بھی ہو، ٹوٹ بٹوٹ فیسٹیول بھی ہو، ڈوکومینٹری سیشن بھی ہو اور صوفی تبسم کے فارسی، اردو، پنجابی کلام کو نامور گلوکار گائیں اور انہیں خراج تحسین پیش کریں۔ اب سوال یہ تھا کہ اس سب معاملات کے لئے ہمیں سپانسر کی ضرورت تھی میں اس سلسلے میں پریشان تھی مگر نسیم شاہد صاحب اور ڈاکٹر مظفر عباس صاحب نے ہمت بندھائی کہ صوفی گروپ آف انڈسٹریز سے جا کر بات کی جائے، ہو سکتا ہے سپانسر مل جائے وہی ہوا جب بڑوں کی دعائیں شامل ہوں اور نیت صاف ہو تو اللہ بھی مدد کرتا ہے۔ انہوں نے بے حد محبت اورخلوص سے ہمیں پورا پروگرام سپانسر کر دیا۔

الحمرا لاہور کے اشتراک سے یہ جشن صوفی تبسم 14اور 15ستمبر کو منعقد کیا گیا جن مہمانانِ گرامی نے شرکت کی ان میں شعیب بن عزیز، بلقیس ریاض، سلمیٰ اعوان،پروفیسر ڈاکٹر مظفر عباس، کنول فیروز، مسرت کلانچویں، مہمان خصوصی ڈاکٹر نجیبہ عارف چیئرمین اکیڈیمی ادبیات پاکستان، صدارت  مجیب الرحمن شامی کی تھی اور نظامت نسیم شاہد نے کی جو خاص طور پر ملتان سے لاہورتشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف بھی خاص طور پر جشن صوفی تبسم کے لئے اسلام آباد سے لاہور تشریف لائیں تھیں۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -