آئینی ترامیم کیلئے کوئی جلدی نہیں، وکلاء سے مکمل مشاورت کریں گے: گورنر پنجاب
فیصل آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کیلئے کوئی جلدی نہیں، وکلاء سے مکمل مشاورت کریں گے، پیپلزپارٹی ہمیشہ وکلاء کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار میں وکلاء کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء نے انتہائی اپنایت سے گفتگو کی ہے، ڈسٹرکٹ بار کی کابینہ کا سب سے بڑا مطالبہ ہائی کورٹ بینچ کا ہے، افتخار چودھری کی بحالی میں پیپلزپارٹی وکلاء کے ساتھ ہر محاذ پر شریک ہوئی،ا فتخار چودھری نے وکلاءاور پیپلزپارٹی سے ہاتھ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آئین کی بحالی کےلیے نکلے، افتخار چودھری سے کوئی سروکار نہیں،مشرف دور میں اٹک میں مجھ پر روزانہ مقدمات درج ہوئے، اندازہ ہوا کہ عدالتی کارروائی میں کتنی خواری ہوتی ہے، ڈسٹرکٹ بار کا ہائی کورٹ بینچ کا مطالبہ بالکل جائز ہے، یہ ملک کی تیسری بڑی بار کے ساتھ زیادتی ہے کہ یہاں ہائی کورٹ بینچ نہیں ہے، وکلاءکی جد و جہد کا ساتھی ہوں۔
سردار سلیم حیدر کا کہنا تھا کہ پوری کوشش کروں گا کہ میرے ہاتھوں سے ہائی کورٹ بینچ کا قیام عمل میں آئے، گورنر ہاؤس کے دروازے وکلاء کےلیے کھلے ہیں، ہر غریب آدمی کےلیے گورنر ہاؤس کھلا ہے جس کی کوئی بات نہیں سنتا، کہا گیا پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں ملتا، ووٹ ملتا نہیں ہوتا لینا پڑتا ہے، سیاست کے ابتدائی دنوں میں پنجاب اسمبلی کی عقبی نشستوں پر بیٹھ کر ہم گپیں لگاتے تھے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے آج کل بہت شور ہے، آئینی ترمیم میں پیپلزپارٹی اپنی ترامیم شامل کرنا چاہتی ہے، ایک آئینی پیکیج حکومت کا اور ایک پیپلزپارٹی کا ہے، یہ ضروری نہیں کہ پیپلز پارٹی حکومتی آئینی پیکیج سے متفق ہو، اٹھارویں ترمیم کے بعد انیسویں زبردستی کروائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں صرف پیپلز پارٹی کو نہیں پوری قوم کو بے حال کردیا، ہم اپنی آئینی ترامیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئین مضبوط ہو، ہم چاہتے ہیں عدلیہ کے فیصلے ایسے نہ ہوں کہ لوگوں کو پہلے ہی پتہ ہو کہ اس بینچ کا فیصلہ کیا ہوگا، ہم چاہتے ہیں ججز پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے،میرٹ پر فیصلے ہوں۔
گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی غیر آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنی، نہ اب بنے گی، ہماری کوئی ضد یا انا نہیں ہے، ہماری ایسی کوئی خواہش نہیں کہ ایسی ترمیم کریں جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔