”حسد“ روح کاناسور کہلاتا ہے،یہ آپ کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آپ کے لیے جذباتی غیرفعالیت اور بے عملی ثابت ہوتا ہے

 ”حسد“ روح کاناسور کہلاتا ہے،یہ آپ کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے ...
 ”حسد“ روح کاناسور کہلاتا ہے،یہ آپ کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آپ کے لیے جذباتی غیرفعالیت اور بے عملی ثابت ہوتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:135
”حسد“: مطالبۂ انصاف پر مبنی پھندا اور جال
”حسد“ روح کاناسور کہلاتا ہے۔ حسد آپ کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آپ کے لیے جذباتی غیرفعالیت اور بے عملی ثابت ہوتا ہے تو پھر آپ کو اس بیکار اور فضول اندازفکر سے نجات حاصل کرنے پر اپنی توجہ مرکوزکرنا چاہیے۔ ”حسد“ واقعی ایک ایسا مطالبہ ہے جوآپ کا محبوب فرد ایک خاص طریقے کے ذریعے کرتا ہے اور پھر آپ کہتے ہیں ”یہ تو انصاف نہیں ہے۔“ حسد کا جذبہ محض احساس کمتری کے باعث ابھرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو دوسروں کے رویوں اور طرزعمل کے باعث جنم لیتا ہے۔ اسی کے باعث دوسرے لوگ ایسا رویہ اور طرزعمل اپناتے ہیں جو آپ کے لیے جذباتی انتشار کا باعث ہوتا ہے۔ جو لوگ واقعی اپنی شخصیت اور ذات سے محبت کرتے ہیں، حسد پر مبنی رویہ اورطرزعمل اختیار نہیں کرتے اور اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافی کے باوجود جارحانہ اور متشددانہ رویہ اختیارنہیں کرتے۔
آپ یہ اندازہ نہیں لگ سکتے کہ آپ کا محبوب دوسرے افراد کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کر لے گا لیکن اگر وہ محبت آمیز رویہ اپناتا ہے تو پھر آپ صرف اس وقت حسد کے باعث غیرفعال اور بے عمل ہو سکتے ہیں، اگر آپ یہ محسوس کریں کہ ان کے ان رویوں کا تعلق آپ سے ہے۔ اس صورتحال کا انحصار آپ پر ہے۔ اگر ایک محب اپنے محبوب سے محبت کرتا ہے، اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہورہی کیونکہ وہ تو محض محبت کر رہا ہے۔ اگر آپ اسے بے انصافی قرار دیتے ہیں تو آپ محب کے روئیے کی توجیہات تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بہترین مثال میری ایک دوست کی ہے کیونکہ اس کا خاوند کسی دوسری خاتون کے ساتھ محبت کے معاملات میں ملوث تھا۔ میری یہ دوست ہر وقت مختلف توجیہات ہی تلاش کرتی رہی تھی: ”میری خطا کیا ہے؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟ کیا میں اس کے لیے ایک بہتر بیوی نہیں ہوں۔“ میری یہ دوست ہر وقت اپنے خاوند کی اپنے ساتھ کی جانے والی بے انصافی کے متعلق سوچتی رہتی تھی۔ اس نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہ اسی طرح کسی مرد کے ساتھ محبت کے معاملات میں ملوث ہوجائے گی تاکہ انصاف کا پلڑا برابر ہو جائے۔ وہ بہت زیادہ چیخی چلائی اور بالآخر غصے اور غم کی دہری کیفیت میں گرفتار ہوگئی۔
اس خاتون کی یہ فضول اوربیکار سوچ، جس کے باعث وہ غمگین اور دکھی ہو ئی، اس کے اپنے لیے انصاف کے مطالبے میں پوشیدہ ہے اور اس کا یہ مطالبہ اس کے اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات میں گھٹن کا باعث ہے۔ اپنے اس روئیے کے ذریعے شائد وہ یہ طرزعمل اختیار کرنا چاہتی ہے، جو وہ ایک عرصے سے اپنا ناچاہتی تھی لیکن اس نے یہ طرزعمل نہیں اپنایا،کیونکہ اس کی نظر میں یہ فعل اچھا نہیں تھا۔ ”انصاف کی فراہمی“ پر مبنی اس کے پرزور اور پراصرار روئیے کا مطلب یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ پہلے کسی مرد کے ساتھ محبت کے معاملات میں ملوث ہوتی تو پھر اس کے خاوند کو کسی کے ساتھ محبت کے معاملات میں ملوث ہونا چاہیے تھا۔ اس خاتون کی جذباتی حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی کہ اس کا یہ فیصلہ کسی دباؤ کے بغیر ہے اور اس کے خاوند کے اپنے روئیے کی بھی ہزاروں وجوہات موجود ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کا خاوند محبت کے معاملے میں ایک نئے تجربے سے گزرنا چاہتا ہو بہرحال اس کی کوئی بھی وجہ ہو، اس وجہ کا اس کی بیوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے خاوند کے اس تعلق کو وہ اپنے خلاف سمجھنے کے بجائے محض دو انسانوں کے درمیان تعلق کے طور پر سمجھ سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا رویہ اختیار نہیں کرتی تو پھر پریشانی اوراضطراب صرف اسی ہی کا مقدر ہے۔ وہ حسد کے اس جذبے کو مزید جاری رکھ سکتی ہے اور اپنی شخصیت کو اپنے خاوند سے کم ثابت کر سکتی ہے یا پھر وہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اپنے خاوند کے کسی دوسرے فرد کے ساتھ تعلقات کے باعث اس کی اپنی قدروقیمت کم نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -