سی سی ڈی کے قیام سے پولیس افسران تحفظات کا شکار

سی سی ڈی کے قیام سے پولیس افسران تحفظات کا شکار
سی سی ڈی کے قیام سے پولیس افسران تحفظات کا شکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے جب سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اورپنجاب میں امن وامان کے حوالے سے جتنے بھی اجلاس کئے ہیں کسی ایک اجلاس میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے پنجاب پولیس کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں سراہا ہو۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے آخری دو اجلاس میں بھی صوبہ بھر کی پولیس کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اورصوبہ بھر میں امن وامان کی صورت حال کو تسلی بخش قرار نہ دیتے ہوئے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کی افادیت کے حوالے سے ریٹائرڈ آئی جی عہدے کے پولیس افسران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا اسے فوری طور پر پورے پنجاب میں نافذالعمل کرنے سے اچھے رزلٹ کی توقع نہ ہے۔ اسے فی الحال چند ایک اضلاع یا پھر لاہور میں آزما لیا جائے تو اس میں بہتری کے زیادہ چانس ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس فیصلے سے صوبہ بھر کی پولیس بھی بظاہر خوش نظر نہیں آتی لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس فیصلے سے اختلاف کرسکیں۔درحقیقت اس فیصلے سے صوبہ بھر کے افسران سی سی پی او، آرپی اوز،سی پی اوز اور ڈی پی اوز سمیت دیگر بہت سارے افسران کے تحفظات ہیں کیونکہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی)کو جو اختیارات سونپے گئے ہیں اس سے ان کے اختیارات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ویسے بھی افسران کا اس بارے میں مؤقف ہے کہ اس سے پولیس کی سربلندی کے امکانات کم جبکہ خرابی کے زیادہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا جہاں تک یہ فیصلہ ہے کہ اس سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔وزیر اعلیٰ پنجاب اگر واقعی ہی پولیس میں اصلاحات لانا چاہتی ہیں تو لاہور پولیس ان کے سامنے ایک ماڈل ہے جنہوں نے بڑے محدود وسائل میں جرائم کی شرح میں حقیقی کمی لاکر دیکھائی ہے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی نگرانی میں ان کی ٹیم ڈی آئی جی عمران کشور،ڈی آئی جی فیصل کامران،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سید ذیشان رضا اور شہر بھر کے تمام ایس پیزشاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے،لاہور میں ایک وقت میں جہاں 150 سے زائد موٹر سائیکل چوری کی روزانہ کی بنیاد پر ون فائیو کالز ہوا کرتی تھیں کیا ڈی آئی جی فیصل کامران کی تعیناتی کے بعد ان کالز سمیت شہر بھر میں ہونیوالی دیگر ڈکیتی چوری کی وارداتوں میں 40 فیصد تک کمی واقع نہیں ہوئی۔آپریشنز پولیس کی اگر ہم رواں سال کے دوران صرف دو ماہ کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جنوری اور فروری کے دو ران 351 گینگز کے 707 ملزمان گرفتار کرکے ان سے 14 کروڑ 72 لاکھ روپے کا مال مسروقہ برآمد کیا ہے۔ جن میں 622 موٹر سائیکلیں، 3 کاریں، 29 رکشے، 25 تولے سونا، 417 موبائل ودیگر سامان برآمد کیا ہے جبکہ ان ملزمان کے گرفتار ہونے سے 1633 مقدمات بھی ٹریس ہوئے ہیں۔ اسی طرح ڈی آئی جی عمران کشور نے سی آئی اے میں اپنی تعیناتی کے دوران مثالی کام کرتے ہوئے اربوں روپے کی ریکارڈ ریکوریاں متاثرین میں تقسیم کرنے کے ساتھ شہر میں چیلنج سمجھے جانے والے مقدمات نہ صرف ٹریس کیے بلکہ معاشرے میں ناسور سمجھے جانے والے شوٹرز اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو ان کے انجام تک پہنچایا جس سے لاہور شہر امن کا گہوارہ بننے میں کامیاب ہوا۔اسی طرح ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا کی لاہور میں تعیناتی کے بعد انویسٹی گیشن ونگ خاصہ متحرک ہو ا ہے۔ مقدمات کو میرٹ پر یکسو کرنے کے ساتھ ملزمان کی گرفتاریوں اور چالاننگ کی شرح میں بہتری، انوسٹی گیشن ونگ میں پائی جانے والی شکایات کا خاتمہ ہوا۔جہاں تک کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی فورس کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ عمل میں لایا گیا ہے اس اعلان کے بعد صوبہ بھر بالخصوص لا ہور میں کام رک کر رہ گیا ہے اس حوالے سے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سید ذیشان رضا سے بات کی گئی کہ کیا اب بھی مقدمات کی تفتیش سی آئی اے کو بھجوا رہے ہیں انہوں نے کہا فی الحال ایسا نہیں کیا جارہا البتہ اس ٹیم کے پاس پہلے سے جو مقدمات ہیں وہ ان مقدمات کی تفتیش کو ہی مکمل کریں گے۔سی سی ڈی کے قیام سے بہت سے مسائل جنم لینے کے ساتھ پنجاب پولیس کے افسران میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پولیس افسران کے ساتھ مل بیٹھ کر اس بے چینی کو ختم کرنا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -