میں نے اپنی کامیابی اور دولت کے حصول کا دروازہ کھول لیا ہے، جلد بازی کا مظاہر ہ نہیں کرتا اور صبرو تحمل کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:207
ایلیکس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”میرے پروگرام کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ میں اپنے متوقع گاہک (ادارے) کے سربراہ کے پاس ذاتی ملاقات کے لیے جاتا ہوں، اسے میں ”آزمائشی انٹرویو“ کا نام دیتا ہوں۔ اس انٹرویو کے دوران، میں متوقع گاہک کے بارے اس کے سرمایہ کاری کے مقاصد، سرمایہ کاری کے ضمن میں پیش کی جانے والی رقم کی حدود، گاہک کی ذمہ داریوں اور اس کے ذاتی پس منظر کے متعلق، زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں اپنی ذات اور اپنے ادارے کے متعلق کم ہی بات کرتا ہوں اور اپنے گاہک کو بولنے کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرتا ہوں۔ جس قسم کے سوال میں پوچھتا ہوں، اس کے ذریعے میرے متوقع گاہک کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ میں اپنے کاروبار کے متعلق مہارت رکھتا ہوں۔ عام طور پر انٹرویو کے اختتام پر میرے پروگرام کے متعلق، دلچسپی نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے لیکن ”میں نے اپنی کامیابی اور دولت کے حصول کا دروازہ کھول لیا ہے“ پر مبنی میرا مقصد تکمیلی مراحل طے کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔“
ایلیکس نے اپنے پروگرام کے چوتھے مرحلے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا ”ادارے کے سربراہ کے ساتھ ذاتی ملاقات کے بعد میں دوبارہ ایک یا دودفعہ، سربراہ سے ملاقات کرتا ہوں، اور متعدد خطوط بھی لکھتا ہوں جن کے ذریعے میں انہیں بتاتا ہوں کہ میری ملاقات/ ملاقاتیں بہت اچھی رہی ہیں اور میں آپ کے ادارے کی ترقی کے لیے خاص طور پر بہت ہی اچھی تجاویز مرتب کر رہا ہوں۔“
اس ضمن میں، میں ادارے کو ایک ذاتی خط بھی لکھتا ہوں جو بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ اس خط کے ذریعے میں اس ادارے کے سربراہ کے لیے اپنے اخلاص اور دلچسپی کا اظہار کرتا ہوں، جس کے باعث ادارے کا سربراہ اپنے آپ کو نہایت ہی اہم تصور کرتا ہے۔ کمپیوٹر کے اس دور میں خط کی روایتی شکل کے باعث بعض اوقات منفی نتائج بھی برآمد ہو تے ہیں اور لوگ اس قسم کے روایتی خطوط سے اکتاہٹ او ربیزاری کا اظہار کر ہے ہیں۔ کیونکہ کمپیوٹر کرکے ذریعے تیار کردہ ان خطوط میں مضمون ایک سا ہوتا ہے لیکن ادارے کا نام تبدیل کر دیا جاتا ہے۔“
میں نے پوچھا ”یہ ذاتی خط بجھوانے کے بعد تم کیا کرتے ہو؟“ اور تمہارا ”پانچواں قدم“ کون سا ہے؟“
ایلیکس نے جواب دیا:”اس خط کو بھجوانے کے تین یا چار دن بعد میں فون کے ذریعے اس خط کے متعلق معلوم کرتا ہوں کہ اس پر کس قسم کی کارروائی ہو رہی ہے۔ میں ادارے کے سربراہ کو پھر بتاتا ہوں کہ میری اس سے ملاقات بہت ہی اچھی اور دلچسپ رہی تھی اور میں اس کے لیے سرمایہ کاری کے بہترین اور منافع بخش مواقع تلاش کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہوں۔ پھر میں دوسری ملاقات کے لیے وقت طے کر لیتا ہوں۔ جب میں اپنے متوقع گاہک سے دوسری بار ملتا ہوں تو میرے پاس سرمایہ کاری کے ضمن میں مخصوص تجاویز موجود ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات اس ملاقات کا نتیجہ میرے حق میں اچھا نہیں برآمد ہوتا لیکن میں جلد بازی کا مظاہر ہ نہیں کرتا اور صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
میں اس لیے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہوں کیونکہ میں اس ادارے کے ساتھ طویل المدتی اور مستقل تعلقات استوار کرنا چاہتا ہوں۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔