مولانا روم کی ایک مستزاد غزل جو ان کی نہیں!

مولانا روم کی ایک مستزاد غزل جو ان کی نہیں!
مولانا روم کی ایک مستزاد غزل جو ان کی نہیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے اس کا اندازہ مجھے اگلے روز ہواجب میں اپنی کسی پرسنل فائل سے ایک ضروری دستاویز تلاش کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک خط پر پڑی جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء فارسی کے اس وقت کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر مرحوم کا تھا۔ اس پر 14فروری 1969ء کی تاریخ مرقوم تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ خط میرے ایک عریضے کے جواب میں ارسال کیا تھا۔ ڈاکٹر باقر صاحب سے میری صرف تین چار ملاقاتیں تھیں اور وہ بھی ایک دوست کی معیت میں جو ان کا شاگرد تھا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کون ہوں اور کیا کرتا ہوں …… اس کے جلد بعد میں نے پاکستان آرمی جوائن کر لی۔پہلی پوسٹنگ، پنجاب رجمنٹل سنٹر، مردان میں ہوئی، وہیں آرمی لائبریری سے انگریزی کی ایک کتاب میں جومولانا روم پر لکھی تھی، ایک ”مستزاد غزل“ کے دو اشعار نظر پڑے۔ مولانا رومی کا دیوان (بلکہ دواوین) میری نظر سے بھی گزر چکے تھے۔ لیکن طالب علم کی حیثیت سے …… ان میں یہ غزل نہیں تھی۔ اس کی ہیئت (Form) جیسا کہ آپ دیکھیں گے، بالکل انوکھی تھی۔ اور مجھے ان دو اشعار کے مطالعے سے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس غزل کا مفہوم اور سیاق و سباق کیا ہے۔ اچانک مجھے ڈاکٹر باقر کا خیال آیا اور میں نے ایک عریضے میں اپنی مشکل بیان کر دی۔ ہفتہ عشرہ بعد ان کا جواب آیا جو من و عن پیش کر رہا ہوں:
محترمی سلام ممنون
گرامی نامہ آپ کا ملا۔


آپ نے جس مستزاد غزل کے دو اشعار لکھے ہیں وہ مولانا روم کی غزل نہیں۔ انہوں نے کوئی مستزاد غزل نہیں لکھی۔ یہ غزل دراصل شمس مشرقی کی ہے اور اس کے جو شعر آپ نے لکھے ہیں ان کی صحیح شکل یہ ہے:
ہر لحظہ بشکل آن بت عیار برآمد…… دل بُرد و نہاں شد
ہر دم بہ لباسِ دگر آں یار برآمد…… گہ پیر و جواں شد
رومی سخنِ کفر نگفتہ است و نگوید…… منکر مشویدش
کافرشدہ آں کس کہ بانکار برآمد…… ازدوز خیاں شد
شمس مشرقی کا تخلص بھی رومی تھا۔ اس کا ایک دیوان ایک دفعہ ہندوستان میں چھپا تھا اور اب نایاب ہے۔ میرے پاس بھی نہیں وگرنہ اس کی مکمل غزل آپ کو بھیج دینا۔ میرے پاس جو اشعار محفوظ تھے، وہ ارسال خدمت ہیں۔ اگر آپ کو کہیں سے شمس مشرقی رومی کا دیوان ملے تو مکمل غزل دستیاب ہو سکتی ہے، وگرنہ نہیں۔


والسلام
محمد باقر
پس نوشت
میں آپ کو یہ خط لکھ چکا تو مجھے مولانا روم کا ایک دیوان اپنے کتاب خانے سے مل گیا جس میں اشتباہاً شمس مشرقی رومی کی یہ غزل بھی شامل کر لی گئی ہے۔ لہٰذا وہاں سے یہ غزل اسی شکل میں نقل کرکے ارسالِ خدمت کی جا رہی ہے جیسے وہاں چھپی ہوئی ہے۔ لیکن یہ اعادہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا روم کے دیوان شمس تبریز میں یہ غزل شامل ہونے کے باوجود ان کی غزل نہیں ہے۔“
ڈاکٹر صاحب نے جو غزل لکھی تھی وہ ظاہر ہے فارسی میں تھی۔ اور انہوں نے ضرورت نہ سمجھی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ساتھ لکھ دیں۔ ان کو ایسا کرنا بھی نہیں تھا۔ لیکن اس غزل کے متن کے ساتھ آج میں اس کا اردو ترجمہ بھی لکھ رہا ہوں تاکہ قارئین کو بتا سکوں کہ مولانا روم کو اقبال نے مرشد رومی کیوں کہا تھا۔ یہ 10اشعار پرمشتمل ایک ”حمدیہ غزل“ ہے جو یہ ہے:


1۔ ہر لحظہ بشکلی بتِ عیار برآمد…… دل برد و نہان شد
ہر دم بہ لباسِ دگر آں یار برآمد…… گہ پیر و جوان شد
(ترجمہ: ہر لحظہ وہ بتِ عیار ایک نئی ہی شکل میں ظاہر ہوتا ہے……دل چھینتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ ہر آن وہ یار دوسروں کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے…… کبھی بوڑھے کے روپ میں اور کبھی جوان کے)
2۔خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ…… خود رندِ سبوکش
خود برسرِ آں کوزہ، خریدار برآمد…… بشکست و روان شد
(ترجمہ: وہ خود ہی کوزہ ہے۔ خود ہی کوزہ بنانے والا، خود ہی کوزہ کی مٹی…… اور خود ہی کوزے سے پینے والا۔ اور خود ہی اس کوزے کے خریدار کے طورپر ظاہر ہوتا ہے اور اس کے لئے اس کوزے کو توڑنا بھی جائز ہے)
3۔ بالجملہ ہموبود کہ می آمد و می رفت…… ہرقرن کہ دیدی
تاعاقبت آن شکلِ عرب وار برآمد…… دارائے جہان شد
(ترجمہ: وہی تھا جو ہر زمانے میں آتا رہا اور جاتا رہا…… ہر زمانے نے اسے دیکھا۔ لیکن بالآخر وہ ایک عرب (ﷺ) کی شکل میں ظاہر ہوا…… اور وہی (ﷺ) دنیا جہاں کے بادشاہ ہیں)
4۔نے نے کہ ہم اوبود کہ می گفت اناالحق…… درصوتِ بوالحی
منصور نہ بود آن کہ برآن دار برآمد…… نادان بہ گمان شد
(ترجمہ: وہی تھا کہ جس نے کہا کہ میں ہی حق ہوں …… خدا کی آواز میں۔ وہ منصور نہیں تھاجو سولی پر ظاہر ہوا…… نادانوں کو یہی لگتا ہے کہ وہ منصور تھا)
5۔گہ نوح شدو می کرد جہانی بدعا غرق…… خود رفت بہ کشتی
گہ گشت خلیل و بہ دلِ ناربرآمد…… آتش، گل ازان شد
(ترجمہ: کبھی وہ نوح ہوا اور دعا سے جہان غرق کیا اور خودکشتی میں چلا گیا۔ کبھی وہ ابراہیم ؑ ہوا۔ آگ کے بیچ جلوہ نما ہوا۔ آتش، اسی سے گلزار ہوئی)
6۔یوسف شد و از مصر فرستاد قمیصی…… روشن گرِ عالم
ازدیدۂ یعقوب چو انوار برآمد…… تادیدہ عیان شد
(ترجمہ: وہ یوسف ہوا اور مصر سے اپنی قمیص بھیجی…… جہان کو روشن کرنے والا۔ وہی یعقوب کی آنکھوں میں منور ہوا…… اسی لئے آنکھوں میں بینائی آئی)
7۔حقا کہ ہم اوبود کہ اندر یدِ بیضا…… می کرد شبانی
درچوب شد و بر صفتِ مار برآمد…… زان فخرِ کیان شد
(ترجمہ: وہی تھا کہ یدِ بیضا کے روپ میں تھا۔بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ پھر وہ لکڑی (لاٹھی) بنا اور سانپ کی شکل میں برآمد ہوا اور بادشاہوں کا افتخار بنا)
8۔می گشت دمی چند بریں روئے زمین او…… از بہر تفّرج
عیسیٰ شد و بر گنبدِ دوّار برآمد…… تسبیح کنان شد
(ترجمہ: اس نے کچھ عرصہ زمین پر سیر کی…… تفریح کے لئے۔ عیسیٰ ہوا اور آسمان پر چلا گیا…… تسبیح پڑھتا ہوا)
9۔منسوخ چہ باشد نہ تناسخ کہ حقیقت…… آن دلبرِ زیبا
شمشیر شد و درکفِ کرّار برآمد…… قتّالِ زمان شد
(ترجمہ: اس نے منسوخ کیا یا وہ تناسخ تھا یا خوبرو دلبر کی حقیقت تھا۔ تلوار بنا اور حضرت علی کرّار کی شکل اختیار کی اور ایک بڑے ہجوم کو قتل کیا)
10۔رومی سخنِ کفر نگفتہ و نگوید……مُنکر مَشَویِدَش
کافر بود آن کس کہ بانکار برآمد…… از دو زخیان شد
(ترجمہ: رومی نے کفر کی بات نہیں کی اور نہ ہی کرتا ہے…… وہ منکر نہیں ہوا۔ کافر ہوا جس نے انکار کیا(شیطان) اور دوزخی اور مردود قرار پایا)
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ ’مستزاد غزل‘ کیا ہوتی ہے، یہ غزل مولانا رومی کی کیوں نہیں اور مجھے کیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ آپ کا قیمتی وقت ایک ایسے موضوع کو بتانے پر ضائع کروں جس کا کوئی تعلق تحریکِ انصاف کے ہمارے ”نئے پاکستان“ سے نہیں۔


مستزاد غزل اور ایک عام اردو یا فارسی زبان کی غزل کے درمیان جو فرق ہے۔ وہ خارجی ہئیت کا ہے۔ اساتذہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے: ”مستزاد اس نظم یا غزل کو کہتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل دو چیزوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے:


1۔ ہر شعر کے ہر مصرع کے بعد ایک ایسے فقرے کا اضافہ جو اس مصرع کے نصف اول یا نصف آخر کے برابر ہو۔
2۔اگر اس اضافی فقرے کو غزل سے نکال دیا جائے تو شعر کے مفہوم میں کوئی خامی یا کمی محسوس نہ ہو یا شعر نامکمل محسوس نہ ہو۔
اردو زبان کے جن اساتذہ نے مستزاد غزلیں کہی ہیں ان میں داغ دہلوی کی ایک غزل بہت مشہور ہے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
جب ان سے حالِ دل بتلا کہا، تو کہا…… ’بچائے تجھ سے خدا‘
کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا……’ہماری جانے بلا‘

کہا جو اُن سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب…… تو بولے وہ ’لاریب‘
دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا…… ’ملے گی تجھ کو سزا‘

غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا…… ’ہمیں نہ رحم آیا‘
رقیب کا جو ذرا ماجرا کہا، تو کہا…… ’یونہی سہی، تجھے کیا؟‘

نہ دل وہی ہے، نہ عاشق کی جاں نوازی ہے…… ’یہ بے نیازی ہے‘
عذابِ پرستشِ روزِ جزا کہا، تو کہا……’ہمیں نہیں پروا‘

خدا کے بندوں پر ایسا ستم روا نہ کرو…… ’ذرا خدا سے ڈرو‘
کسی غریب نے باالتجا کہا، تو کہا…… ’کسی کو کیوں چاہا؟‘

شکائتِ تپشِ غم سے کیا ہو دل ٹھنڈا…… اثر ہو جب الٹا
تمہاری باتوں سے دل جل گیا، کہا تو کہا……’جلانے میں ہے مزا‘

عدو کا ذکر جب وہ چھیڑسے نکالتے ہیں …… وہ صاف ٹالتے ہیں
یہ کیا طریق ہے اے بے وفا! کہا، توکہا…… ’تجھے تو ہے سودا‘

پتے کی ان سے جو کوئی کہے قیامت ہے…… کہ اس سے نفرت ہے
حسیں کہا تو سنا، خود نما کہا تو کہا…… بہت بگڑ کے ”بجا“

شریر و شوخ ہے وہ داغ یہ تو ہے ظاہر…… ’عبث ہوئے تر بھر‘
کسی نے چھیڑ سے تم کو بُرا کہا، تو کہا…… ’کہ چھیڑ کا ہے مزا‘


ویسے تو مستزاد کا لغوی مطلب زیادتی یا اضافہ ہے لیکن اصطلاحِ شعر میں یہ ایسا اضافہ ہے کہ اس کو اگر شعر سے خارج بھی کر دیا جائے تو معافی میں کوئی فرق نہ پڑے۔
اب رہی یہ بات کہ یہ غزل مولانا روم کی نہیں، رومی مشرقی کی ہے جن کا تخلص تو رومی تھا لیکن کوئی تعلق مولانا روم یا ان کے فلسفہ سے نہ تھا۔
رومی مشرقی کی یہ فارسی مستزاد غزل (جو اوپر نقل کی گئی) اس لئے مولانا روم کی نہیں ہو سکتی کہ اس سے صوفیاکے اس دبستانِ فکر کی نفی ہوتی ہے جو ہمہ اوست کی بجائے ہمہ از اوست کے قائل ہیں۔ مولانا روم”ہمہ از اوست“ کے قائل تھے، ہمہ اوست کے نہیں جبکہ اس غزل میں حضرت نوح سے لے کر تمام پیغمبروں حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت محمدﷺ تک اور کئی صوفیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خدائے واحد کی وحدانیت کا ظہور تمام انبیا کرام کے ہاں معنوی اور داخلی اعتبار سے یکساں ہے لیکن خارجی اعتبار سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر خدا کبھی نوح کی دعا میں، کبھی ابراہیم کی آتش میں، کبھی یعقوب کے دیدۂ نابینا میں، کبھی یوسف کی قمیص(زلیخا کے حوالے سے) میں، کبھی موسیٰ کے جادوگروں سے مقابلے کے وقت ان کی لاٹھی کے سانپ بن جانے میں، کبھی عیسیٰ کی صلیب میں اور کبھی حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت میں ظاہر ہوا…… یہ امثال دل کو لگتی ہیں۔ لیکن ان سے حضرتِ انسان کی انانیت اور اس کے خلیفہء خداوندی ہونے پر ضرب پڑتی ہے۔ مولانا روم اس ’ہمہ اوست‘ والے فلسفے کو نہیں مانتے تھے اور اسی لئے اقبال ان کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں۔


غالب نے قطرے کے سمندر میں مل جانے کو عشرتِ قطرہ کہا تھا اور درد کے حد سے گزرنے کو دوا ہوجانے کا نام دیا تھا لیکن اقبال کے ہاں قطرہ جب دریا میں ملتا ہے تو اپنا وجود پھر بھی برقرار رکھتا ہے۔ اسرارِ خوری کی تمہید میں فرماتے ہیں:


بہرِ انساں چشمِ من شب ہا گریست
تادریدہ پردۂ اسرارِ زیست

ذرہ کِشت و آفتاب انبار کرد
خرمن از صد رومی و عطّار کرد

قطرہ تا ہم پایہ ء دریا شود
ذرہ ازبالیدگی صحرا شود


(ترجمہ: اس حضرتِ انسان کے لئے میری آنکھیں کئی راتوں تک روتی رہیں، تب جا کر زندگی کابھید مجھ پر کھلا…… میں نے ذرہ بویا اور آفتاب اگایا اور رومی اور عطار کے انبار لگا دیئے…… اس کے بعدجا کر معلوم ہوا کہ قطرہ، سمندرکا ہم پایہ کیسے ہوتا ہے اور ذرہ پھیل کر صحرا کیسے بنتا ہے)
اور جہاں تک ’نئے پاکستان‘ کا سوال ہے تو یہ میں نے ازراہِ تفنن کہا ہے کیونکہ ہم کالم نگار شاذ ہی ایسے موضوعات کی طرف آتے ہیں جن کا تعلق شعر و سخن اور صوفیانہ مسائل سے ہو۔ ہر روز سیاسی اور نیم سیاسی موضوعات پر کالموں کی بھرمار دیکھ دیکھ کر جی چاہا کہ قارئین کی توجہ ایک ایسے غیر سیاسی موضوع کی طرف بھی راغب کرواؤں جس پر آج کل بہت کم توجہ دی جاتی ہے…… ”نئے پاکستان“ میں اور بے شمار مسائل ہیں جن سے ہمیں فرصت نہیں ملتی۔ مستزاد غزل کو کون پڑھے اور سمجھے؟

مزید :

رائے -کالم -