سپریم کورٹ کے آفت بداماں فیصلے

   سپریم کورٹ کے آفت بداماں فیصلے
   سپریم کورٹ کے آفت بداماں فیصلے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔تقسیم کے وقت ہمیں مضبوط اینگلو سیکشن قانونی ڈھانچے پر استوار عدلیہ ملی تھی۔ مسلسل تہذیبی انحطاط اور فکری پسماندگی کے سبب اب اس کی باقیات عجائب گھر میں رکھ دی جائیں تو تاریخ محفوظ ہو جائے گی۔  انتظامیہ ہو یا عدلیہ دستوری چھتری تلے سب ادارے پارلیمان سے سیراب ہوتے ہیں، لیکن موجودہ عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمان کا معتدبہ حصہ اب بھی اسی نہر سے "فیض" یاب ہے جس کا باجوائی کھالہ اسی قدیم ندی سے جڑا ہے۔ دو سال قبل محسن نقوی نامی سینیٹر سے کتنے لوگ واقف تھے؟ یہ صاحب کہاں سے تشریف لائے۔ ہر تیسرے چوتھے ریاستی ادارے میں جھلملاتے سلمہ ستاروں سے مزین معززین کی نئی لہر کیا آپ دیکھ نہیں رہے۔ سیاسی لوگ وقتی نفع نقصان سے اوپر ہو کر سوچا کریں۔ 

 سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ضیائی مارشل لاء  کے خلاف نصرت بھٹو کیس 1979کا ذرا "بہتر" تسلسل ہے۔ یہ فیصلہ ظفر علی شاہ کیس 2000ء کا بھی عکس ہے،لہٰذا مجھے کچھ تعجب نہیں ہوا، دو ایک استثنائی مواقع کے سوا عدلیہ ہمیشہ ملک کو بحرانوں میں دھکیلنے کی ذمہ دار رہی ہے۔1977ء کی آئین شکنی پر نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں مارشل لاء کے خلاف درخواست دائر کی۔ تمام قانونی نظام ایک ہی چیز بتاتے ہیں کہ  مدعی کی داد رسی کی جائے یا نہ کی جائے۔درخواست کے جواب میں مدعا علیہ بھی کچھ مانگے تو عدالت اس سے الگ درخواست مانگتی ہے جس کی سماعت الگ سے ہوتی ہے۔ نصرت بھٹو کی درخواست یہ تھی کہ مارشل لاء کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور جنرل ضیاء حسب وعدہ 90دنوں میں انتخاب کرا کر اباؤٹ ٹرن ہو جائیں۔ سپریم کورٹ نے مدعا علیہ کے جواب پر مارشل لاء کو جائز قرار دیا، اسے تو گوارا کیا جا سکتا ہے کہ شاید مدعا علیہ نے جواز ثابت کرلیا ہو۔ لیکن آئین میں ترمیم کا اختیار نہ تو زیر بحث آیا، نہ مدعا علیہ نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ دستور 1973ء کے تحت عدلیہ کا یہ پہلا فیصلہ تھا جس نے ہمیں آئینی بحران میں دھکیل دیا۔

1999 ء میں جنرل پرویز مشرف کی آئین شکنی پر سید ظفر علی شاہ اور 5دیگر داد رسی کے لیے سپریم کورٹ گئے 1977 ء والی حالت پھر سامنے تھی۔ وہی فوج، وہی آئین شکنی، وہی عدلیہ اور چند پٹیشنر۔ سوال پھر وہی تھا کہ معطل آئین، آئینی اداروں کو آئین کے مطابق چلانے کا حکم دیا جائے۔ مدعا علیہ یعنی آئین شکن جرنیل کی طرف سے آئینی ترمیم کا اختیار قطعا نہیں مانگا گیا تھا۔ جس کا قانون میں یہی جواب ہوتا ہے کہ الگ پٹیشن دائر کرو، یہاں یہ بھی نہیں ہوا، لیکن ہماری مطلقاً آزاد عدلیہ نے آئین شکن کو ازخود آئینی ترمیم کا اختیار دے کر ملک کو اس بحران میں دھکیلا جس سے ہم آج تک نہیں نکل سکے، ہر تیسرے دن ہمیں پولیس افسروں، معصوم فوجی جوانوں، کپتانوں اور میجروں کی معطر میتوں کو کندھا دینا پڑتا ہے۔ اس غارتگری کے ذمہ دار وہ جج بھی ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کی آئین شکنی کو جواز دے کر اسے بن مانگے آئینی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔

لیکن سنی اتحاد کونسل والا سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان دو مذکورہ فیصلوں سے بھی آگے کی کوئی چیز ہے، دنیا بھر کی عدالتیں اپنے دائرہ اختیار والے مقدمات کا فیصلہ یا تو مدعی کے حق میں کرتی ہیں (جو یہاں سنی اتحاد کونسل تھی) یا درخواست مسترد کر دیتی ہیں، لیکن ہماری عدالت نے نہ صرف مدعی کے حق میں فیصلہ نہیں دیا بلکہ فیصلہ اس سیاسی جماعت کے حق میں دیا جو مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی، جسے سنا بھی نہیں گیا تھا۔یہاں اصل مدعا علیہان خصوصی نشستوں والی وہ خواتین اور اقلیتی ارکان اسمبلی تھے جنہیں الیکشن کمیشن رکن قرار دے چکا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان اصل مدعا علیہان کو سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ دیا اور غیر متعلقہ تحریکِ انصاف سے 15دن کے اندر بغرض اسمبلی رکنیت نئے نام مانگ لیے، ان آزاد ارکان نے یہ بیان حلفی دیا تھا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے رکن ہیں۔ لیکن عدالت نے انہیں سنے بغیر فیصلہ دیا کہ تم لوگ نہ آزاد ہو نہ سنی اتحاد کونسل کے رکن، تو پھر حلف کی حیثیت کیا رہی؟

 ان آزاد ارکان نے سنی اتحاد کونسل کا حلف اٹھا رکھا ہے لیکن سپریم کورٹ ان کے حلف کے برعکس یہ کہہ کر انہیں تحریک انصاف میں بھیج رہی ہے کہ تحریک انصاف ایک پارٹی تھی اور ہے اور یہ کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط تھا۔ اگلے ہی لمحے الیکشن کمیشن کی وضاحت آ گئی کہ ہماری ویب سائٹ پر آج بھی تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت کے موجود ہے، ان معزز ججوں نے بھی آخر حلف اٹھایا ہوا ہے، تو کیا انہوں نے اپنے آئینی حلف کو ان آزاد ارکان جیسا ہی سمجھ کر فیصلہ دیا ہے؟ ہم تو یہی جانتے تھے کہ حلف مانند نکاح ہوتا ہے۔ وہ نکاح جس کے ہوتے ہوئے غیر ازدواجی تعلقات کو دنیا بھر میں ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا یہ معزز جج صاحبان اس سوال کی اجازت دیں گے کہ ان کا اپنا آئینی حلف بھی کیا ویسا ہی سمجھا جائے جس طرح کا حلف وہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا قرار دے رہے ہیں۔انہوں نے کونسل کا حلف اٹھایا لیکن جج انہیں غیر متعلق تحریک انصاف کے ارکان قرار دے رہے ہیں۔براہ کرم تفصیلی فیصلہ بالوضاحت لکھئیے کہ ایسا کیوں ہے؟

 ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال اور جسٹس منیر کا کیا عدلیہ سے ابھی رخصت نہیں ہوا۔ بندوق بردار ضیا الحق اور پرویز مشرف کو بن مانگے آئینی ترمیم کا اختیار دینے والے جج یقینا قومی مجرم تھے۔ لیکن عام پارلیمانی زندگی میں آئینی حلف کے بعد آئینی و قانونی روایات سے انحراف کو ہم کس زمرے میں رکھیں۔ سب جانتے ہیں کہ نکاح کے بعد غیر ازدواجی تعلقات ایک خاندان یا ایک قبیلے کو برباد کرتے ہیں، لیکن آئینی حلف کے بعد آئینی روایات سے انحراف کے نتائج کس قدر بھیانک ہوتے ہیں، یہ سمجھنا ہو تو ضیا الحق اور پرویز مشرف کو بن مانگے آئینی ترمیم کا اختیار دینے والوں کی تصاویر دیکھ لیں۔ آئینی حلف کی ان دو خلاف ورزیوں کے نتیجے میں ہم ہر روز دو تین بیٹوں بچوں کی میتوں کو کندھا دیتے ہیں۔ حالیہ مقدمے سے باہر کی سیاسی جماعت کو بن مانگے دے دینے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اللہ ہم پر اور ہمارے ملک پر رحم کرے۔

مزید :

رائے -کالم -