علامہ محمد اقبالؒ                    (3)

علامہ محمد اقبالؒ                    (3)
علامہ محمد اقبالؒ                    (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ اقبال اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت خوش مزاج، حاضر جواب اور بذلہ سنج بھی تھے اکثر اوقات ایسا لطیف مزاح یا طنز کرتے کہ محفل کشت ِ زعفران بن جاتی۔ 

علامہ بچپن ہی سے بہت ذہین و فطین اور حاضر جواب بھی تھے۔ یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ علامہ ایک بار سکول پہنچے تو بہت دیر ہوچکی تھی جب کلاس میں پہنچے تو اُن کے اُستاد نے اُن سے پوچھا کہ اقبال تم دیر سے کیوں آئے ہو؟ کم عمر اقبال نے برجستہ جواب دیا کہ جناب اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آیا کرتا ہے۔ اس جواب پر آپ کو اپنے اُستاد سے بے حد شاباش ملی۔ 

ایک بار کسی کالج کے چند طلباء نے اقبال کو اپنے کسی ادبی جلسے میں شرکت کی دعوت دی، علامہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تشریف لے گئے۔ دورانِ جلسہ چند شوخ قسم کے لڑکوں نے علامہ کو چھیڑنے کی غرض سے کہا ”علامہ صاحب ایک مصرعہ ہے اگر آپ دوسرا مصرعہ موزوں کردیں تو ہم جانیں۔“ علامہ مسکرائے اور کہا اچھا بتاؤ مصرعہ۔ ایک نے مصرعہ سنایا: ”دشت اشکوں سے بھریں، آہ سے سوکھیں دریا“ علامہ اقبالؒ نے بلاتوقف شعر یوں مکمل کیا۔ 

دشت آنکھوں سے بھریں آہ سے سوکھیں دریا

مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ہرن پانی میں 

یہ شعر سن کر حاضرین لاجواب ہوگئے۔ 

ایک بار ہندو اور سکھ طلباء کا ایک خصوصی وفد علامہ اقبال سے ملنے آیا۔ اِدھراُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس دوران طلباء نے شکایتاً علامہ اقبال سے کہا: ”شاعر ساری انسانیت کے لیے لکھتا ہے لیکن آپ صرف مسلمانوں کے لیے ہی لکھتے ہیں حالانکہ آپ پر سارے ہندوستان کی مختلف قوموں کا حق ہے۔“ علامہ اقبال تھوڑی دیر سوچتے رہے پھر اُلٹا اُن سے سوال کردیا ”آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے گھر میں آپ کے اپنے ماں باپ سخت بیمار ہوں تو ایسے میں آپ پہلے ان کا علاج و تیمارداری کریں گے یا انہیں چھوڑ کر دوسروں کی مدد کرتے پھریں گے۔“ اس پر وہ بولے ظاہر ہے اپنے ماں باپ کا زیادہ اور پہلا حق ہے۔ علامہ نے مسکرا کر کہا۔ ”اسلام اور مسلمان مجھے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آج مسلمانانِ ہند جس مصیبت میں مبتلا ہیں میرے خیال میں مجھ پر اور میری شاعری پر سب سے پہلا حق انہی کا بنتا ہے۔ اسی وجہ سے میں ان کے لیے لکھتا ہوں اگر میں ان کی تکالیف اور مصیبت رفع کرسکا اور انہیں آزادی، عظمت امن و آرام دینے میں کامیاب ہوسکا تو پھر یقینا میں نہ صرف ہندوؤں اور سکھوں، بلکہ دنیابھر کے انسانوں کے لیے لکھوں گا۔“ علامہ اقبال کا یہ فلسفیانہ اور مدلل جواب سن کر سامعین لاجواب ہوگئے۔ 

علامہ صاحب عمر کے آخری حصے میں اکثر بیمار رہنے لگے تو حکیم صاحب نے آم سے پرہیز کرنے کا بتایا۔ علامہ کو آم بہت پسند تھے چنانچہ بحث وغیرہ کے بعد حکیم صاحب نے ایک آم کھانے کی اجازت دے دی۔ لیکن ساتھ یہ زور دے کر کہا صرف ایک آم روزانہ کھانے کی اجازت ہے ا س سے زیادہ نہیں۔ کچھ دن بعد حکیم صاحب دوبارہ معائنہ کرنے کے لیے علامہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ علامہ صاحب کے سامنے طشتری میں ایک بڑا سا آم رکھا ہے جو کئی آموں کے مساوی ہے اور علامہ صاحب بڑے مزے سے چھری سے کاٹ کر آم نوش فرما رہے تھے۔ حکیم صاحب نے آم کی طرف اشارہ کیا اور غصے سے پوچھا! کیوں جناب یہ سب کیا ہے؟ علامہ معصومیت سے بولے ”صرف ایک آم۔“ 

کتاب روزگارِ فقیر میں فقیر سید وحیدالدین علامہ کے حوالے سے ایک واقعہ لکھتے ہیں: میرے ایک قریبی رشتہ دار سیّدواجد علی کو کتے پالنے کا بہت شوق تھا۔ ایک بار میں ان کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا۔ موٹر میں ان کے کتے بھی تھے۔ ہم لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس جاکر بیٹھے اور کتوں کو موٹر میں ہی چھوڑ دیا، تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کی ننھی بچی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی اور کہنے لگی، اباجان موٹر میں کتے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرف اشارہ کرکے کہا ”نہیں بیٹا یہ تو آدمی ہیں۔“ 

علامہ اقبال قائداعظم محمد علی جناح کے بڑے عزیز دوست بھی تھے۔ وہ قائداعظم کو نہایت مفید مشورے دیتے تھے کیونکہ علامہ اقبال یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان نازک حالات میں قائداعظم ہی مسلمانوں کی صحیح راہنمائی کرسکتے ہیں۔ قائداعظم بھی علامہ اقبال کی بہت عزت کرتے تھے۔ چنانچہ قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران فرمایا تھا: 

اگر میں برصغیر میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کو معرضِ وجود میں آتے دیکھوں تو میرے ایک طرف اس ”مملکت کوفی“ حکومت اور دوسری طرف علامہ اقبال کی تصانیف رکھ دی جائیں تو بلاتامل علامہ اقبال کی تصانیف کو ترجیح دوں گا۔ علامہ اقبال خود کو قائداعظم کا سپاہی کہتے اور سمجھتے تھے۔ 

بلاشبہ علامہ قوم کے تمام طبقات میں ہر دلعزیز تھے۔ کالجوں کے پروفیسر، طلبا، اہل سیاست اور عوام سب ان کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ ان کے خیالات سے مستفید ہوتے تھے ان کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا رہتا تھا۔ 

آپ نہایت درویش منش اور سادہ مزاج تھے۔ کھانے پینے رہن سہن اور لباس کے معاملے میں کسی تکلیف کے روادار نہ تھے۔ 23مارچ 1940 کو تاریخی جلسے کے موقع پر قائداعظم نے مزارِ اقبال پر کھڑے ہوکر اپنے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سیّد کو یہ الفاظ کہے تھے۔ 

اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ لیتے کہ ہم نے اُن کے خواب کو پورا کردیا ہے۔ علامہ اقبال صرف ایک شاعر کا نام نہیں۔ ایک فلسفی اور مفکر کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک ایسے دانائے راز کا دوسرا نام ہے جس نے برصغیر کے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ علامہ نے کہا: 

اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو 

لاہور سے تا خاکِ بخارا و ثمرقند 

انہوں نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرسکتے ہیں ان کی شاعری عالمگیر اور آفاقی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کو کہا: 

وہ غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور یقین محکم عمل پیہم اور اتحاد سے کام لے کر عظمت رفتہ حاصل کریں۔ انہوں نے عمل، جدوجہد اور تحفظ خودی کا درس دیا۔ بے شک اقبال جیسا شاعر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ آپ کا کلام اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہے۔ ان میں سات فارسی اور چار اردو کے مجموعے ہیں جو لازوال ہیں۔ جب تک روئے ارض پر کاغذ، قلم، کتاب، حرف، لفظ زندہ ہیں اقبال کا آفاقی کلام زندہ رہے گا اور پڑھنے سننے والوں میں نیا جذبہ، نئی تحریک، نیا ولولہ، نیا جوش عطا کرتا رہے گا۔ 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 

سبزہئ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 

علامہ اقبالؒ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنی لکھی ہوئی ایک نظم پر اختتام کرتی ہوں۔ 

اپنے تخیلات کی پرواز تھا وہی 

اور زندگی کے ساز کا اک راز تھا وہی

زیر نظر تھیں جس کے فلک کی بلندیاں 

شانِ سبک خرامیئ آواز تھا وہی 

کونین کی وسیع فضائیں تھیں بزم عشق 

آفاق گیر حسن کا اعجاز تھا وہی

وہ باصفا تھا فہم و فراست کا تھا امیں 

آتش نوائے سوز تھا اور ساز تھا وہی

ہر سُو اُسی کے درسِ خودی سے تھی روشنی

اس دہر بے مثال کا دم ساز تھا وہی

اقبال علم و فن کا پیمبر تھا فوزیہؔ

سو دشتِ قیس نجد میں افراز تھا وہی

مزید :

رائے -کالم -