بات سمجھنے کی یہ ہے آزادی کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا آئرلینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہے، گورا سچ سننا پسند کرتا ہے اور جھوٹ سے اسے نفرت ہے

 بات سمجھنے کی یہ ہے آزادی کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا آئرلینڈ اور انگلینڈ کے ...
 بات سمجھنے کی یہ ہے آزادی کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا آئرلینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہے، گورا سچ سننا پسند کرتا ہے اور جھوٹ سے اسے نفرت ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:22
تعلیم بیچی ہے ضمیر نہیں؛
 پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہو ئی تو میرے دادا ہراول دستے کے ان دیکھے رکن تھے۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود مسلم لیگ کے ہر جلسے میں بابا جی کے ساتھ شرکت کرتے، باقاعدگی سے مسلم لیگ کو چندہ دیتے، مسلمانوں کے سارے اخبار اور رسائل خریدتے۔ اپنی اس حب الوطنی کا انہیں نقصان بھی بہت ہوا۔ ترقی نہ کر سکے۔ ایک بار کسی ہندو نے انگریز ایکسین کو شکایت کردی کہ”یہ شخص سرکاری ملازم ہونے کے باوجود سیاست میں حصہ لیتا ہے۔ایک سیاسی جماعت کو چندہ دیتا ہے۔“ انگریز ایکسین ”مسٹرجان رنکن“ نے بلا لیا بلکہ میرے دادا دورے پر تھے اور صاحب بہادر بھی اسی ضلع میں دورے پر تھا۔ دونوں ایک ہی ریسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ میرے والد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس سے مل کر واپس آئے تو بقول ابا جی کچھ پریشان تھے۔ ابا جی نے پوچھا؛ ”ابا جان! خیر ہے۔“ کہنے لگے ”بیٹا! کسی نے شکایت کی تھی، صاحب نے بلایا تھا۔میں نے سچ سچ بتا دیا کہ بات درست ہے۔ لیکن سر بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آزادی کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا آئرلینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ہے۔ میں اپنی سرکاری ڈیوٹی تن دہی اور ذمہ داری سے نبھاتا ہوں لیکن میری ایک ذمہ داری میری قوم بھی ہے۔ مجھے وہ ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔ سر! ذرا ٹھنڈے دماغ سے ان باتوں پر غور کرنا کہ میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ میں نے اپنی تعلیم بیچی ہے اپنا ضمیر نہیں۔ میں پہلے مسلمان ہوں پھر تمھارا ملازم۔ میں ہر وہ کام کروں گا جو مسلمانوں کی بہتری کے لئے ہو گا اور یقیناً آزادی بڑی نعمت ہے۔“ بیٹا میں کہہ کر چلا آیا ہوں۔ مجھے یقین ہے میری باتوں کا گورے کے دل پر اثر ضرور ہوا ہو گا۔  باقی جو اللہ کو منظور۔“      
 میرے والد بتاتے ہیں اگلی صبح مسٹر رنکن اپنا چائے کا کپ پکڑے تمھارے دادا کے پاس آئے اور کہا؛”well Rasheed i could not sleep all night you really made me shake my head, whatever you said, was absolutely true. I appriciate your views, lets be friends again. forget the complaint."                      
یہ گورے کا بھی بڑا پن تھا اور میرے دادا کی حب الوطنی بھی کہ اپنی نوکری کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ گورا سچ سننا پسند کرتا ہے اور جھوٹ سے اسے نفرت ہے۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول بھی ہے کہ ہر حالت میں سچ کہنے سے مت گھبراؤ۔ابا جی بتاتے تھے؛”بیٹا! اگر انسان حق اور سچ پر ہو تو ممکن ہی نہیں کہ اللہ مدد نہ کرے۔ بس اللہ پر یقین کامل ہونا چاہیے۔“دادا کا ایک اور یادگار واقعہ بھی سناتا چلوں۔ محکمہ انہار میں خالی اسامیوں پر بھرتی تھی۔ اس دور میں کوٹہ سسٹم تھا۔ نوکریاں آبادی کے تناسب سے ہندوؤں، مسلمانوں میں تقسیم ہوتی تھیں۔ دادا نے ساری اسامیوں پر مسلمان ہی بھرتی کر لیے۔شکایت ہوئی اور پھر پیشی بھی۔ انگریز سرکار کو جواب دیا؛”جی جناب! میں نے سارے مسلمان بھرتی کرکے ماضی میں مسلمانوں سے ہونے والی زیا دتیوں کا ازالہ کیا ہے۔ ماضی میں مسلمانوں کے کوٹے پر بھی ہندو بھرتی ہو جاتے تھے۔ آج حساب برابر ہو گیا۔“ریکارڈ چیک ہوا اور میرے دادا کا مؤقف درست ثابت ہوا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -