سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے لگا تومصر کی باگ ڈور بظاہر کمزور بادشاہ کو پکڑا کر نکل گئے، جس سے چند فوجی جرنیلوں نے حکمرانی چھین لی

 سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے لگا تومصر کی باگ ڈور بظاہر کمزور بادشاہ کو ...
 سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے لگا تومصر کی باگ ڈور بظاہر کمزور بادشاہ کو پکڑا کر نکل گئے، جس سے چند فوجی جرنیلوں نے حکمرانی چھین لی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:6
جنگِ عظیم میں مسلسل ناکامیوں، شدید مالیاتی دباؤ اور بعد ازاں کمزور حکمرانی کی بدولت جب سلطنتِ برطانیہ کا سورج غروب ہونے لگا تووہ ملک کی باگ ڈور مصر کے بظاہر ایک کمزور اور عیاش بادشاہ فاروق اول کو پکڑا کر نکل گئے۔ جس سے 1952 کے وسط میں چند فوجی جرنیلوں نے حکمرانی چھین کر اس کو چلتا کیا اور خاندانی بادشاہت اس کے نومولود بیٹے فواد ثانی کو دے کر خود اس کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے۔ مزہ نہ آیا تو انقلاب کا نعرہ لگا کروہ کھل کر سامنے آگئے اور فوج نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر کے ایک جرنیل محمد نجیب کو ملک کا پہلا صدر بنا دیا اور کرنل جمال عبدالناصر وزیر اعظم قرار پائے۔ ملک کا نام تبدیل کر کے جمہوریہ مصر العربیہ رکھ دیا گیا۔ اگلے ہی برس جمال عبدالناصر نے ایک بار پھر محمد نجیب کا تختہ الٹ دیا اور پھروہ اگلے 15برس تک ملک کا بلا شرکت غیرے پرایک طاقتور حکمران رہا۔
 ہر چند کہ شروع ہی سے نہر سویز پر برطانیہ کا قبضہ تھا، پھر بھی 1936 کے ایک معاہدے کے تحت یہ نہرسرکاری طور پر برطانیہ کے زیر تسلط آگئی تھی، 1951 میں معاہدہ مکمل ہونے پر اس نے نہر کا قبضہ چھوڑنے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور پھر چھوڑ بھی دیا۔ بعد ازاں جب مصر کا جھکاؤ روس کی طرف ہونے لگا تو ان مغربی ممالک نے مصر کی امداد روک دی۔ جواباً جمال عبدالناصر نے ایک دلیرانہ قدم اٹھا کرنہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کر دیا۔اس کے اس اقدام پر برطانیہ،فرانس اور اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 1956 میں نہر سویز پر قبضے کی جنگ چھیڑی تو اس نے نہ صرف مردانہ وار ان دھمکیوں کا مقابلہ کیا بلکہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتر آیا۔ پھیلاؤ کے خوف سے یہ جنگ توجاری نہ رہ سکی تاہم جمال عبدالناصر اپنے مضبوط اور وطن پرست مؤقف کی بنیاد پر مصری قوم کا ہیرو بن گیا اور یوں نہر سویز پر مصر کا قبضہ مکمل ہوا۔اور پھر یہ قافلہ چلتا ہی رہا۔
میں جب مصر گیا تھا تو یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو رہا تھابلکہ کسی حد تک ہوچکا تھا۔ قاہرہ اب عظمتوں کا شہر بن رہا تھا، جہاں بڑی تیزی سے ترقی ہو رہی تھی۔ ایک مربوط منصوبہ بندی کی بناء پر دنیا بھر سے سیاحوں کا یہاں آنا جانا شروع ہوگیا تھااور سیاحت کی مد میں بہت سارا زر مبادلہ بھی ملک میں آ رہا تھا اور امریکہ دوستی کی بناء پر اربوں ڈالر کی امداد بھی مل رہی تھی۔ تاہم حکومت کی بد عنوانیوں، اقرباء پروری اور ناقص منصوبہ بندی کی بدولت اس کے ثمرات عام عوام تک نہیں پہنچ پائے اور وہ بری طرح غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ وہاں عام انسان کی زندگی بڑی ہی کٹھن اور تکلیف دہ تھی۔لیکن زندگی رواں دواں رہی اور لوگوں نے اپنے زندہ رہنے کے رستے خود ہی تلاش کر لئے تھے۔
جب میں نے مصر کے بارے میں اپنے جذبات اور تجربات تحریر کرنے چاہے تو میرے سامنے ایک مسئلہ آن کھڑا ہوا کہ آیا میں اپنی تحریر کو مصر کے حالیہ ماحول کے مطابق اور عام سیاحتی تجربات کے پس منظر میں دیکھوں یا اپنی یادداشتوں کو محض قدیم مصریوں اور فرعونوں کے ادوار تک محدود کر لوں،جو رفتہ رفتہ میرے دل و دماغ پر حاوی ہوگئے تھے۔
قباحت یہ تھی کہ جدید مصر کے بارے میں سیاحوں اور طالع آزماؤں نے اتنا کچھ لکھ دیا تھا کہ اس پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش کم ہی تھی، سوائے ان چند ایک واقعات کے جو ان کے جانے کے بعد وقوع پذیر ہوئے یا وہ کسی وجہ سے ان پر لکھنابھول گئے تھے۔ پھر ابلاغیات میں حالیہ پیش رفت کی بدولت گھر بیٹھے لوگوں کو ہر جگہ کی اور ہر پل کی خبریں تسلسل سے ملتی رہتی ہیں، لہٰذا مصر کے بارے میں اب وہ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ ان کو اپنے وطن کے بارے میں علم ہے۔ہاں 1980ء کی دہائی کے مصر کا کم ہی لوگوں کو علم ہوگا۔
پھر ذہن میں آیا کہ کیوں نہ قدیم مصریوں اور خصوصاً فرعونوں کے بارے میں تفصیل سے کچھ لکھ دیا جائے۔ لیکن وہ تاریخ اتنی پیچیدہ اور ہزاروں برسوں پر محیط اس بُری طرح الجھی اور بکھری پڑی تھی کہ اس کا کوئی سرا ہی نہ ملتا تھا۔ اس کیلئے مجھے ماہر فرعونیات بن کر برسوں تحقیق کرنا پڑتی،جو شائد مجھے تو میری دلچسپی کی وجہ سے تھوڑا بہت لطف دے جاتی مگر اس کے نتیجے میں تحریر کی گئی کتاب کے ابتدائی چند صفحات دیکھ کر ہی قاری آگے بڑھنے سے منکر ہو جاتا اور اسے پڑھنے کے بجائے اپنے شیلف کی زینت بنانا زیادہ پسند کرتا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -