خطب�ۂ حج۔۔۔مسلمان حکمرانوں اور عوام کے لئے روشنی کا مینار
مسجدِ نبویؐ کے امام شیخ حسین بن عبدالعزیز الشیخ نے کہا ہے کہ اسلام کی اصل تصویر احسن اعمال پر ہے، سیاست اور معیشت کو دین کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے،مسلمانوں کو حکمرانوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے،حکمران ایسا ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور ہر طرح کی بُرائی روکے، حکمرانی ایسی ہو جس میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کے احکامات کی پیروی کی جائے، شریعت کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ اللہ کا حکم ہے فیصلہ سازی عدل کی بنیاد پر کی جائے، مسلمان کا مال، خون اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اسلام ظلم و زیادتی کو پسند نہیں کرتا، مسلمان کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے، نبی پاکؐ کی پیش کردہ اخلاقیات کسی بھی بے گناہ کو نقصان پہنچانے سے روکتی ہیں۔ معاشرے کے امن کے لئے ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے، اخلاقِ حسنہ معاشرے کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے،ہم پوری دُنیا کو قرآن پاک کے مطالعے کی دعوت دیتے ہیں، قرآن سیدھے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔ محمد مصطفی ؐ پر ایمانِ کامل اور احکامات کو برحق ماننا ایمان کا اہم جزو ہے، فجر میں قرآن کی تلاوت روزِ آخرت گواہی دے گی۔ دُنیا بھر سے آئے ہوئے24 لاکھ مسلمانوں کے سامنے خطبۂ حج دیتے ہوئے امام مسجدِ نبویؐ نے تلقین کی کہ اللہ کا حکم ہے تمہیں مجھ سے محبت ہے تو رسولؐ کی اطاعت کرو۔
شیخ حسین بن عبدالعزیز الشیخ نے حجاج کرام کے سامنے اسلامی تعلیمات کا ملخّص مختصر ترین الفاظ میں پیش کیا، جن پر عمل کرنے میں ہی دُنیا و آخرت کی فلاح وابستہ ہے، اللہ کے آخری نبیؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں جو خطبہ حجتہ الوداع ارشاد فرمایا تھا اس میں مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے لئے حرام قرار دیا تھا،لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ آج کے دور میں مسلمان ہی مسلمانوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ مسلمان معاشروں کے اندر اور مختلف مسلمان ممالک کی آپس کی لڑائیوں میں بھی مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے،حالانکہ تمام مسلمان ملتِ واحدہ ہیں اور اُنہیں ایک جسدِ خاکی کی طرح اس طرح زندگی گزارنی چاہئے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو باقی اعضا بھی اس کا درد محسوس کریں،لیکن مقام افسوس ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور عوام نے اللہ تعالیٰ کے آخری نبیؐ کے اِس فرمان کوپسِ پُشت ڈال کر خون انسانی کو ارزاں کررکھاہے، کہیں ناقصِ فہم اسلام رکھنے والے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ذبح کر رہے ہیں،اُن کے بچوں اور عورتوں کو تہہِ تیغ کر رہے ہیں،لاکھوں لوگ اُن کی لائی ہوئی مصیبتوں میں مبتلا ہو کر اپنے ممالک کو خیر باد کہنے پر مجبور ہیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں،طول طویل سفروں کے دوران ہزاروں لوگ بھوک پیاس اور سفر کی تکلیفوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جو زندہ رہ گئے وہ جی نہیں رہے، جیتے جی جہنم کی سختیوں سے گزر رہے ہیں، کہیں مسلمان پناہ گزین اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں اور اُن کے پھول جیسے بچے کم خوراکی کے مریض بن رہے ہیں،ان کی ضروری نشوونما نہیں ہو رہی، اُن کے جسموں پر پورے کپڑے نہیں،پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے وہ گو نا گوں عوارض کا شکار ہو رہے ہیں اور انہیں اِن مصیبتوں سے دوچار کرنے والے اپنے تئیں جہاد کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی فِکر کی کجی کو درست کرے اور انہیں راہِ راست پر آنے کی توفیق دے۔
امام صاحب کے خطاب کا رُخ بیک وقت مسلمان حکمرانوں اور عوام کی طرف تھا، جہاں حکمرانوں پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے، وہاں مسلمانوں کو حکمرانوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کا بھی حکم ہے،لیکن یہ سب کچھ اِس بات سے مشروط ہے کہ حکمران خود نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں، اپنے عوام کو بھی اس کی تلقین کریں، کوئی مسلمان حکمران اگر عوام کو کوئی ایسا حکم دے گا جو شرع اسلامی کے مطابق نہیں، بلکہ اس کے خلاف ہے تو عوام پر اس کی پابندی لازمی نہیں۔ایک حدیثِ رسولؐ کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوق (حکمران) کا کوئی ایسا حکم لائقِ اتبّاع نہیں ہے،جس سے خالقِ حقیقی کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہو۔ خلیفۃ الرسولؐ حضرت ابوبکر صدیق ؐ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہوئے جو خطبہ ارشاد فرمایا اُس میں جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم سمیت تمام حاضر مسلمانوں کو یہی تلقین کی تھی کہ وہ اُن کا وہی حکم مانیں جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو اور فرمانِ الٰہی اور فرمانِ رسولؐ کے اتباع میں ہو،جس حکم سے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہو اس کا ماننا مسلمان عوام کے لئے ضروری نہیں ہے۔
اِس خطبۂ حج میں مسلمان حکمرانوں کو اطاعتِ خداوندی کا جو درس دیا گیا ہے وہ بنیادی حکم ہے اور اس کی روشنی میں اگر آگے بڑھا جائے تو اِس وقت مسلمان ممالک میں جو مناقشات موجود ہیں اُن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سعودی حکمرانوں کو اللہ تعالیٰ نے خادم الحرمین ہونے کی سعادت عطا کی ہوئی ہے اِس لئے اُن کا فرض ہے کہ پوری اُمت کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور اپنے احکامات و فرائض کے ذریعے اتحاد اُمت کی راہ ہموار کریں اور پہلے سے جو اختلافات موجود ہیں، اُن کا فاصلہ کم کریں، اس خطبے کی روشنی میں اگر سعودی حکمران غور کریں گے تو اُنہیں اپنے بہت سے احکامات ایسے نظر آ جائیں گے، جو اسلامی تعلیمات سے لگا نہیں کھاتے اور اُمت میں تفرقے کا باعث بنے ہوئے ہیں، اِس لئے ہمارے خیال میں سعودی حکمرانوں پر سب سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اُمت کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر پالیسیاں اپنائیں اور عالمی سامراج کی دی ہوئی پالیسیوں کو رد کر دیں جن کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں اور اُن کا اسلحہ بِکتا رہے۔سعودی عرب کو اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے اسلحہ کی خریداری کا تو پورا پورا حق ہے،لیکن یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس اسلحے کو مسلمانوں کی خونریزی کے لئے استعمال کرتا رہے اور اُمت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرتا رہے، سعودی مملکت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ موجود ہے اس کا فرض ہے کہ وہ امام مسجدِ نبوی کے روشن خطبے پر عمل کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کو سیدھی راہ دکھائے اور اس راستے پر جانے سے روکے جو اُمت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے، اپنی حکمرانی کی ضروریات کو اُمت کے مفادات کے تابع کر کے ہی مسلمان دُنیا میں امن کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔