وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر72
قبا کا قبیلہ کے جوان کشتی کی تیاری کرنے لگے تو اندر سنگھ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے اچھا پہلوان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اورکہا۔
’’اوئے متروکچھ نے خیال کرو۔یہ وحشی تمہیں مارڈالیں گے۔‘‘
اکی پہلوان نے اندرسنگھ کوتسلی دی اوربڑھک مارکربولا۔’’سردارجی جی گھبراؤ نہیں۔۔۔دیکھا جائے گا۔اللہ کا نام لے کر ان کے سورما کو اکھاڑے میں لے کرآئیں۔‘‘
اکی کی بڑھک نے دوسروں کو مہمیز دی اور سب کے ہاتھوں میں کھجلی ہونے لگی۔ ’’اکی بادشاہ پہلے ہمیں لڑنے دو۔‘‘
’’ناں بھئی۔۔۔پہلا شکار میں کروں گا۔‘‘ اکی نے حتمی اعلان کردیا۔’’پھرتم آگے آنا۔‘‘
اکی پھرسے کندن بن چکا تھا۔ وہ اکھاڑے کے درمیان گیا اور قبا کا والوں کوشہ دی۔’’نکالو اپنا سورما۔‘‘
ایک قبا کا کڑیل جوان اڑتا ہوا اکی کے سر پر پہنچا اور گلے ملنے کے انداز میں گتھم گتھا ہو گیا۔نوجوان وحشیانہ انداز میں اکی کو نیچے گرانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ وہ جس انداز میں اکی کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا بڑا معمولی تھا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دیسی کشتی360داؤں پر مشتمل ہے اور ہر داؤ کے کئی رنگ اور ڈھنگ ہیں۔اکی اس شاہ زور کے داؤ کو دیکھ کر مطمئن ہو گیا۔پھر اسے الٹا مار دیا۔نوجوان سانڈ کی طرح ڈکراتا ہوا اکھاڑے میں گرا تو قبا کا کا جتھہ حیرتوں کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ اکی ان کے پہلے بہترین شاہ زور کو گرانے کے بعد تو خوں آشام نظروں سے انہیں گھورنے لگا اور للکارمار کر دوسرا جوان طلب کرنے لگا۔
وحشیوں نے ایک اور سورما اکی کے مقابل بھیج دیا۔جونہی وہ دستور کے مطابق اکی کے گلے لگا اکی نے پہلے داؤ میں ذرا سی تبدیلی کی اور اسے بھی چت کر دیا۔ دوسرے پہلوان کے گرتے ہی قبا کا قبیلے کو ہوش آگیا۔ اب اس نے اپنے ہیوی ویٹ چیمپئن اور مستقبل کے حکمران عدی امین کو اکی کے مقابلے پر اتاردیا۔
عدی امین طاقت کو سمجھ بوجھ سے استعمال کرنا جانتا تھا مگر اکی نے اسے اتنی مہلت ہی نہ دی۔ ا دھر وہ اکی کے گلے ملا اور ادھر اکی کی ٹانگ حرکت میں آئی۔وہ ہوا میں اچھلا پھر اتنے زور سے اکھاڑے میں گرا کہ عدی امین کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔ عدی امین قبا کا کا ایک پہاڑ تھا۔ اس کے سر ہوتے ہی وہ بغلیں جھانکنے لگے۔
دوسرے دن یوگنڈا میں اکی رستم جنات کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔ قبا کا شاہ زور کسی دیو اور جن سے کم نہ تھے۔ دوسرے روز بھی اندر سنگھ نے کشتیوں کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر بھی قبا کا نوجوان آدھمکے مگر اس بار وہ بڑے مؤدب ہو کر کشتیاں دیکھتے رہے اور پاکستانی پہلوانوں کو داد دیتے رہے۔
گاماں رستم زماں اور امام بخش اپنے شیروں کے کارنامے سن کر مارے اشتیاق کے نیروبی پہنچ گئے ۔ادھر بھولو برادران بھی یوگنڈا اسے نیروبی واپس پہنچ گئے۔
کشتیوں کا دوسرا دور شروع ہوا تو تھمن سنگھ اللے تللے پر اتر آیا اور اس نے مہندر سنگھ اور اکی کے درمیان کشتی کا اعلان کرادیا۔
یہ کشتی دیکھنے والوں میں مقامی لوگوں کی شرکت سب سے بڑھ چڑھ کی تھی۔ اکی ان کے لیے حیرتوں کا مجسمہ تھا۔ وہ اس عجوبہ روز گار پہلوان کو دیکھنا چاہ رہے تھے جس نے چند منٹ میں قبا کا قبیلے کے تین شاہ زوروں کو مات دے دی تھی۔ اس کشتی کا منصف تھمن سنگھ تھا۔ پہلے رستم زماں گاماں کو منصف کے فرائض اداکرنے کی درخواست کی گئی تھی مگر تھمن سنگھ کے معترض ہونے پر اکی پہلوان نے کہہ دیا۔’’تھمن سنگھ خود منصف بن کر آجائے۔ ستے خیراں نیں۔‘‘
کشتی شروع ہوئی۔ مہندر سنگھ جھپٹ کراکی پر حملہ آور ہوا تو اکی نے اسے الٹا دے مارا۔ مہندر سنگھ صاف چت ہو گیا۔ تماشائیوں کے نعرے گونجے مگر منصف مہندر سنگھ کا بڑا بھائی تھا۔ اس نے ڈنڈی ماری اور پشت اکھاڑے کی طرف کرکے تماشائیوں کو دیکھنے لگا اور چلایا۔
’’میں اندھا تو نہیں ہوں۔ مہندر نہیں گرا۔‘‘
تھمن سنگھ نے مہندر سنگھ کو اشارہ کیا اور وہ ایک بار پھر اکی کے مقابل آگیا۔ اکی نے اسے جھکائی دے کر ایک تباہ کن ڈھاک ماری اور مہندر سنگھ اکھاڑے کے کنارے جاکر گرا تو ایک بار پھر چت ہو گیا۔ اس کے کولہے پر زبردست چوٹ لگی تھی۔ وہ درد سے دوہرا ہوتا جارہاتھا مگر تھمن سنگھ ایک بار پھر ڈنڈی مار گیا۔ اس موقع پر نواب صدیق علی خاں نے ساتھ کے صوفہ پر براجمان انڈین ہائی کمشنر کو دیکھا تو وہ مارے خجالت کے نظریں چرا گیا۔ اسے اپنے دیس کے مہان پہلوان تھمن سنگھ کی بے ایمانی سے شدید دھچکا لگا تھا۔
اچھا،گوگا اور دوسرے جوان اپنی نشستوں سے اٹھ کر اکھاڑے میں داخل ہونے لگے۔ وہ اس بے ایمانی پر سراپا احتجاج بن کر نہ جانے کیا کرتے کہ گاماں رستم زماں نے گرج کر انہیں کہا۔
’’اچھے۔۔۔واپس آؤ اور آرام سے بیٹھ جاؤ۔‘‘
وہ تو اپنی نشتوں پر بیٹھ گئے مگر عوام نے پنڈال سر پر اٹھا لیا اور تھمن سنگھ کو لعنت ملامت کرنے لگے۔تھمن سنگھ ڈھیٹ بنا رہا اور مہندر سنگھ کو تیسری بار اکی کے سامنے لاکر کھڑا کیا۔ اس بار اکی نے مہندر سنگھ کو اٹھا کر پھینکنے کی بجائے نیچے رکھ لیا اور خوب رگیدا اور پانچ منٹ بعد چت کردیا۔تھمن سنگھ کی ڈھٹائی حد کو چھونے لگی اور اس نے ایک بار پھر پشت اکھاڑے کی طرف کرلی۔ لوگ تو اس کی جسارت پر بھڑک اٹھے ہی تھے مگر مہندر سنگھ خود بھی غیض و غضب کی تصویر بن گیا اور تھمن سنگھ کو گالی گلوچ کرتے ہوئے بولا۔
’’یوں میری ہڈیاں پسلیاں تڑوا کے ساہ لویں گا۔‘‘
مہندر سنگھ کے اس جملے پر تماشائی لوٹ پوٹ ہو گئے۔مہندر نے اسی پر بس نہ کیا۔ وہ بڑے جذباتی انداز میں اکی کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ اٹھا کر اس کی فتح کا اعلان کر دیا۔ تماشائی مہندر کے اس جذبے پر نثار ہو گئے۔انہوں نے تالیاں بجا کر مہندر سنگھ کو خراج تحسین پیش کیا۔ بھولو برادران امام بخش ور رستم زماں گاماں پہلوان نے مہندر سنگھ کو گلے لگایا ار اسے کہا۔’’تم ہار کر بھی جیت گئے ہو مہندر۔۔۔تم نے پہلوانی کا حق ادا کر دیا ہے‘‘۔
نواب صدیق اس کشتی سے بڑے محظوظ ہوئے۔ انہوں نے فرط مسرت سے انڈین ہائی کمشنر کی طرف دیکھا تو وہ نہ جانے کب کا جا چکا تھا۔(جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں