فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر576
قیام پاکستان کے بعد روشن آرا بمبئی سے پاکستان آگئی تھیں۔ اس وقت بھی وہ کیرانہ گھرانے کے انداز میں خیال کی گائیکی میں بے مثال سمجھی جاتی تھیں۔ استادوں نے انہیں آواز اور سروں کے ساتھ ساتھ راگ راگنیوں کی بھی ایسی تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس قدر محنت ، عرق ریزی اور لگن سے یہ سب حاصل کیا تھا کہ سننے والے رشک کرتے تھے۔ ان کا الاپ مخصوص تھا جسے وہ درجہ بدرجہ بڑھاتی جاتی تھیں۔ اسی میں وہ مختلف راگوں کو شامل کرکے دل کی دھڑکن تیز کرنے والی برقی تانیں بھی ملا لیتی تھیں انہوں نے ہمیشہ گائیکی کے بلند اصولوں اور وقار کو پیش نظر رکھا تھا۔
اپنے استاد سے انہیں اتنی عقیدت اور محبت تھی کہ ان کے گائے ہوئے نغمے گاتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے تاثر میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ ایک طرح سے استاد کی خدمت میں ان کا نذرانہ عقیدت ہوتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر575 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اپنے عہد میں انہیں عہد ساز مغنیہ تسلیم کر لیا گیا تھا وہ گائیکی میں اپنی خداداد آواز اور فن کے ساتھ ساتھ ذہانت سے بھی کام لیتی تھیں۔ انہیں کلاسیکی موسیقی کی تھیوری پر عبور حاصل تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے تو وہ یکتا تسلیم کی جاتی تھیں۔ انہوں نے لگ بھگ چالیس برس تک اپنی آواز کا جادو جگایا اور دنیائے موسیقی پر صحیح معنوں میں حکمرانی کی۔ ان کے خلاف کبھی کسی کو بغاوت کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ انہوں ن ے پاکستان آکر یہاں کی موسیقی میں بھی نت نئے تجربات کیے اور اسے مالال مال کر دیا۔
وہ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آئی تھیں۔ لاہور ان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا مگر ان کا قیام لالہ موسیٰ میں رہا ۔ یہ لاہور راولپنڈی کے درمیان میں ایک قصبہ ہے مگر روشن آرا بیگم کی رہائش گاہ بننے کے بعد اس کی عظمت اور رفعت میں کئی گنا اجافہ ہوگیا۔ محفلوں اور ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کے لیے لاہور آتی جاتی رہتی تھیں۔ ان کی موسیقی اور گائیکی کی نزاکتوں اور خوبیوں کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور وہ صرف سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ ریڈیو کے علاوہ ٹیلی ویژن سے بھی انہوں نے کچھ پروگرام پیش کیے مگر مغرب زدہ ٹی وی پر ان کی خاطر خواہ قدر نہیں کی گئی۔ حالانکہ ایسے عظیم فنکار کسی قوم اور ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے اس کے بعد کہیں جا کر کوئی ایک ’’دیدہ ور‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ اب تو پاکستان ٹی وی نے روشن آرا بیگم کو جیسے بھلا ہی دیا ہے۔ انہی کو کیا غزل گانے والے مایہ ناز فنکار مہدی حسن، غلام محمد، امانت علی خان جیسے بھی اب ٹی وی کی نظروں میں بے وقعت اور بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ البتہ ریڈیو پاکستان سے روشن آرا بیگم اور دوسرے گلوکاروں کی آوازیں سننے میں آجاتی ہیں۔ روشن آرا بیگم ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے پاکستان کی کلاسیکی موسیقی کا رخ بدل دیا۔ ایسی آوازیں اور ایسی ہستیاں اب کہاں۔۔۔؟
یہ آوازیں سننے کے لیے اب ہمارے کان ترستے ہی رہیں گے۔ شاید ہم اسی کے مستحق ہیں۔
۔۔۔
منیر نیازی کے پرستاروں کی آج کمی نہیں ہے۔ ادب میں ان کا ایک امتیازی مقام ہے۔ ان کی شاعری کا اسلوب جدا اور انداز فکر و انداز پیشکش نرالا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے جغادری شاعر بھی اب ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور موقع محل کے مطابق ان کے اشعار بھی استعمال کرتے ہیں۔ شاعر تو وہ آغاز ہی سے ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ آج بھی ان کے چالیس پچاس سال پہلے کے اشعار دیکھیے تو ان میں بھی وہی کیفیت رنگ اور سوز و گداز موجود ہے جو کہ بعد میں ان کی شاعری کی انفرادیت قرار پایا۔ ان کی فکر بھی وہی ہے اور زندگی بسر کرنے کا ڈھب بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ وہ ایسے شاعر ہیں جو کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے یہاں تک کہ نقادوں کو بھی کھری کھری سنا دیتے ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں ہے۔ منیر نیازی کا جوانی میں بھی یہی انداز تھا جب وہ ابھی باقاعدہ سکہ بند شاعر تسلیم نہیں کئے گئے تھے۔ جب وہ بڑے بڑے شاعروں کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بزرگانہ اور بلند حیثیت اختیار کرتے تو سننے والے ہنس پڑتے۔ شاعری اور گفتگو میں بھی منیر نیازی کے لب و لہجے اور اصطلاحوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ چڑیلیں، بدشکل لوگ، مکروہ چہرے، کند ذہن اور غبی انسان۔ لوگوں کے بارے میں یہ تبصرہ ہے کہ اس کا ذہن شاہ دولے کی چوہے کی طرح سکڑ کر رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر577 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں