فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر577
منیر نیازی کے ساتھ کچھ دیر بیٹھئے تو اس قسم کے الفاظ اور اصطلاحیں آپ کو آج بھی سننے کو ملیں گی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے ۔ میرے نزدیک منیر نیازی نے گزشتہ چالیس پینتالیس سالوں میں کوئی ترقی نہیں کی اور اس لیے کہ وہ پہلے ہی اپنے زمانے سے سالہا سال آگے تھے۔ اسی لیے لوگ ان کی باتوں پر مضحکہ خیز انداز میں ہنستے تھے۔ یہ نہیں کہ اب منیر نیازی کا ذہن رسا مزید وسیع اور کشادہ ہوگیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ اب لوگوں کا ذہن ان کی بات سمجھنے کے قابل ہوتا جا رہا ہے کچھ اور وقت گزرے گا تو ان کے قدر دانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ موازنہ یا تقابل تو مقصد نہیں ہے لیکن میری ناچیز رائے میں ان کا معاملہ مرزا غالب جیسا ہے۔ مرزا کو بھی اپنے زمانے سے یہی شکایت رہی کہ وہ ان کی قدر نہیں کرتا حالانکہ۔۔۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر576 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
پورا شعر سنے بغیر اس کا لطف نہیں آئے گا جو یوں ہے
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
ادھر معاصرین اور مخالفین کو ان کی مشکل پسندی بے مزہ اور بے معنی لگتی تھی ان کا کہنا تھا
مگر اپنا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
یہ دو سو سوا دو سو سال پہلے کی باتیں ہیں۔ جوں جوں وقت گزر گیا اور لوگوں میں غالب کا کلام سمجھنے کا شعور پیدا ہوا تو وہ غالب کے اشعار میں معنی و مطالب نکالنے لگے یہاں تک کہ غالب کے اشعار کی شرحیں اور تفسیریں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر نا بغہ روزگار انسان تھا جس نے ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرعے میں ایک سمندر سمو دیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے غالب کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کو اس کی بے پایاں عظمت کا احساس ہونے لگا ہے۔ ہمیں آپ غالب کی طرفداری کا الزام نہ دیجئے گا کیونکہ یقین کیجئے۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
آپ کہتے ہوں گے کہ عجب آدمی ہے۔ غالب کے بغیر اس کی کوئی بات مکمل ہی نہیں ہوتی حالانکہ تذکرہ منیر نیازی کا ہو رہا تھا۔
منیر نیازی ممکن ہے عمر میں ہم سے کچھ بڑے ہوں مگر جوانی کے دنوں میں ہم عمر ہی تھے اس لیے خاصی یاری دوستی تھی۔(یہ تحریر تب لکھی گئی جب وہ بقید حیات تھے ) اس زمانے میں ملنے ملانے کے بہانے اور سامان بھی بہت زیادہ میسر تھے۔ منیر نیازی کے بارے میں ہم پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اس وقت ان کا تذکرہ ایک اور حوالے سے جا جا رہا ہے۔ ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ منیر نیازی کی شاعری اور سحر انگیز شخصیت کے ہم اس وقت سے مداح ہیں جب نہ تو وہ کسی کو گھاس ڈالتے تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا انہیں خاطر میں لاتا تھا۔ گھاس وہ اب بھی کسی کو نہیں ڈالتے مگر ان کو خاطر میں لانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو ا ہے۔
یہ سن ۵۰،۵۱ کی بات ہے جب ان کی اور ہماری ملاقاتیں شروع ہوئی تھیں پھر ہم صحافت کے راستے فلمی صنعت میں چلے گئے۔ منیر نیازی نے بھی صحافت میں بہت ہاتھ پیر مارے مگر بات نہیں بنی۔ صحافی بننے کے لیے ایک خاص قسم کے ذہن اور سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ٹھہرے شاعر، اس لیے صحافت میں ان کا گزارہ نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنا ذاتی جریدہ’’سات رنگ‘‘ بھی نکالا اور نقصان اٹھایا پھر مختلف رسائل و جرائد میں قلم برداشتہ مضامین لکھتے رہے مگر شاعری کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
یہی شاعری بالآخر انہیں فلمی دنیا میں لے گئی۔ ہم بھی اس وقت وہاں پہنچ گئے تھے۔ منیر نیازی کی باتوں پر سب لوگ دل کھول کر ہنستے تھے۔(خود منیر نیازی پر نہیں ان کی باتوں پر) وہ بہت دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ آج بھی کرتے ہیں۔ فلم اسٹوڈیو میں کھڑے ہو کر وہ برملا فلم کے اکثر ہدایت کاروں اور مصنفین کو بدصورت، مکروہ ذہن، شاہ دولہ کے چوہے اور غبی کہا کرتے تھے۔ خود بھی اپنی باتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے اور دوسرے بھی لطف اٹھاتے تھے۔
منیر نیازی (اور اسی عہد میں حبیب جالب) جیسے لوگوں کا فلمی دنیا میں گزارہ بہت مشکل تھا۔ حبیب جالب بھی صاف گو اور منہ پھٹ آدمی تھے مگر ان کا انداز قدرے بہتر اور مودبانہ ہوتا تھا مگر باز آنے والے وہ بھی نہیں تھے۔ خدا بخشے تنویر نقوی جیسے کشادہ قلب شاعروں، اداکار علاؤ الدین جیسے اداکاروں، ریاض شاہد جیسے قدر دانوں اور خلیل قیصر جیسے ذہین اور باشعور ہدایت کاروں کو جن کی بدولت منیر نیازی اور حبیب جالب دونوں کو فلمی دنیا میں ’’داخلہ‘‘ مل گیا۔ آغاز میں ان کی مطبوعہ مشہور غزلوں اور نظموں کو فلموں میں شامل کیا گیا جو بہت کامیاب ہوئیں۔ بعد میں ان سے سچویشن کے مطابق بھی گیت اور نغمے لکھوائے گئے مگر یہ ان دونوں حضرات کے لیے ناپسندیدہ کام تھا۔ بھئی شاعر تو اپنی مرضی سے اپنے موڈ میں لکھتا ہے مگر فلم کے لیے ایک مخصوص موقع محل کے لیے ایک مخصوص طرز کے مطابق شاعری کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ موسیقاروں سے ان کی جھڑپیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ قدر دان ہدایت کاروں کی بدولت ان کے ناز نخرے بھی برداشت کر لیے جاتے تھے ورنہ یہ لوگ کافی نازک مزاج تھے۔ وجوہات ظاہر ہیں۔
اسی ضمن میں ہم نے ناصر کاظمی صاحب کا واقعہ بھی بیان کیا تھا۔ ہدایت کار حسن طارق کو پہلی فلم ’’نیند‘‘ بنانے کا موقع ملا تو انہوں نے ایک انوکھی کہانی کا انتخاب کیا جو ریاض شاہد نے لکھی تھی۔ ہیروئین میڈم نور جہاں تھیں۔ ہیرو کے لیے اسلم پرویز لیے گئے جو دراصل پرلے درجے کے ولن تھے۔ یہ یکسر مختلف کہانی اور نرالے کردار تھے۔ جنہیں طارق صاحب نے علاؤ الدین، اسلم پرویز، نور جہاں اور طالش جیسے فنکاروں کے ذریعے بہت خوب بصورتی سے پیش کیا تھا۔
’’نیند‘‘ کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ کافی ذہین تھے اور ادب و شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ بمبئی میں سعادت حسن منٹو، نجم نقوی، نخشب جارچوی جیسے لوگوں کی صحبت میں رہے۔ لاہور میں تنویر نقوی، ریاض شاہد، طالش، علاؤ الدین جیسے باذوق لوگوں کا حلقہ احباب تھا۔ حسن طارق صاحب کی خواہش تھی کہ اس فلم کے نغمات ناصر کاظمی سے لکھوائے جائیں۔ ناصر کاظمی بری مشکل سے اس ’’غیر شاعرانہ‘‘ کام کے لئے رضامند ہوئے۔ انہیں اور عطرے صاحب کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔ ناصر کاظمی ایسے گئے کہ پلٹ کر دوبارہ فلمی دنیا کا رخ نہ کیا۔ طارق صاحب نے ان کے اچانک غائب ہونے کا شکوہ کیا تو پان کھاتے ہوئے بولے ’’یار مجھے کہاں پھنسا دیا تھا۔ اپنے بس کا کام نہیں ہے۔‘‘
حبیب جالب اور منیر نیازی کو یہ کریڈٹ دینا چاہئے کہ اپنی تمام تر نازک مزاجی کے باوجود انہوں نے فلموں کے لیے لکھا اور یہ حقیقت ہے کہ فلموں کی زیب و زینت میں اضافہ کر دیا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر578 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں