فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر578

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر578
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر578

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس طویل تمہید کا مقصد ایک ایسے شخص سے متعارف کرانا ہے جو روز اول ہی سے منیر نیازی کا پرستار اور ان کی شاعرانہ عظمت کا قائل تھا۔ یہ موسیقار حسن لطیف للک تھے۔ حسن لطیف ان کا نام تھا مگر ساتھ میں ’’للک‘‘ کا لاحقہ بھی لگا ہوا تھا۔ ہم نے کئی بار پوچھا کہ یہ ’للک‘‘ کیا ہے مگر وہ ہنس کر ٹال گئے اور کم از کم ہم پر یہ راز فاش نہ ہو سکا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ انسان تھے۔ موسیقی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے اس کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی تھی اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے مگر ان کا دل فلموں میں پڑا ہوا تھا۔ اس لیے فلمی نگار خانوں اور فلمی دوستوں میں ہی وقت گزارتے تھے۔ ریاض شاہد، تنویر نقوی، خلیل قیصر، علاؤ الدین ان کے گہرے دوست تھے مگر نہ تو ان حضرات نے حسن لطیف کو کبھی موسیقار سمجھا اور نہ ہی حسن لطیف نے کبھی اشارے سے بھی یہ خواہش ظاہر کی کہ یار مجھے سے بھی تع فلم کی موسیقی بنواؤ۔
جب ہم سب اکٹھے ہوتے تو حسن لطیف ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے اور منیر نیازی کی غزلیں اپنی سریلی سوز بھری آواز میں طرز بنا کر سنایا کرتے تھے۔ ان کا خاص انداز یہ تھا یہ وہ گاتے ہوئے مستقل طور پر مسکراتے رہتے تھے۔ یہ بات ہم نے کسی اور موسیقار میں نہیں دیکھی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر577 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
وہ شعر پڑھتے اور سردھنتے۔ مسکرا مسکرا کر دوسروں سے بھی داد لیتے کہ دیکھو کیا کلام ہے۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں
اپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آجاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ۔۔۔
یہ طرز بھی حسن لطیف ہی نے بنائی ہے جو شاعری سمیت دل میں اتر کر رہ جاتی ہے۔حسن لطیف نے موسیقار کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آگاز ۱۹۴۸ء میں کیا تھا جب انہوں نے ہدایت کار امین ملک کی فلم ’’جدائی‘‘ کے لیے موسیقی بنائی تھی۔ یہ فلم ۱۹۵۰ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ بے حد غریبانہ حالات میں بنی تھی مگر اس بے سرو سامانی کے عالم میں بھی ان کے دو نغمات ہٹ ہوئے۔
دیکھ بدریا کالی (منور سلطانہ)
کوئی من پہ میرے چھائے رے (منور سلطانہ، علی بخش ظہور)
اس فلم کے دوسرے گیت بھی اچھے تھے مثلا ۔۔۔
کیسے گزرے کی زندگی غم میں
مگر نہ تو فلم چلی اور نہ اس کی موسیقی۔ ہر طرف بھارتی فلموں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس میں یہ بوندیں کہاں نظر آسکتی تھیںَ
حسن لطیف نے جن فلموں کی موسیقی بنائی ان کے بارے میں بعد میں سنائیں گے فی الحال فلم ’’سسرال‘‘ کے نغموں کا ذکر مناسب ہے۔ ریاض شاہد اس کے مصنف اور ہدایت کار تھے اور یہ فلم پرانے لاہور کے اصلی ماحول میں بنائی گئی تھی۔
ریاض شاہد نے اس کے لیے حسن لطیف کا انتخاب کیا اور انہوں نے موسیقاری کا حق اداکر دیا۔ اس فلم کے سارے گانے ہٹ تھے۔ یہ ایک حقیقت کے قریب فلم تھی چمک دمک کم تھی مگر نازک اور اہم سوشل موضوع پیش کیا گیا تھا اس لیے قبول عام نہ حاصل کر سکی مگر حسن لطیف کے نغمے آج بھی گونج رہے ہیں۔
میڈم نور جہاں کا گایا ہوا یہ نغمہ جب ریکارڈ ہو رہا تھا اس وقت بھی ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا اور سامعین سانس روکے بیٹھے تھے۔ خودمیڈم بھی آبدیدہ ہوگئی تھیں۔
جا اپنی حسرتوں پہ
آنسو بہا کے سو جا
حسن لطیف نے اپنی پسندیدہ منیر نیازی کی غزل بھی خوب استعمال کی۔
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
مہدی حسن نے بھی اس نغمے میں سر ، سوز و ساز، غم و الم، حسرت و یاس سبھی کچھ بھر دیا تھا۔
اس فلم کے دسرے گانے یہ تھے؂
۱۔ سو گئیں شہر کی گلیاں (آصف خاں)
۲۔ ادھر بھی دیکھیں ایک نظر تو کیا جائے گا آپ کا(احمد رشدی، آئرین پروین)
۳۔ کبھی مسکرا۔ کبھی جھوم جا۔ کبھی آہ بھر کے بھی دیکھ لے (احمد رشدی)
۴۔ آئے گا صنم جب ۔ تب نہ جانے کیا ہوگا (نسیم بیگم)
اسی سال حسن لطیف کی دوسری فلم نے بھی دھوم مچا دی۔ یہ ہدایت کار اور اداکار دلجیت مرزا کی فلم ’’برسات‘‘ تھی۔
اس فلم کا ایک گیت دو مختلف مقامات کے لیے سلیم رضا اور میڈم نور جہاں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔
زندگی مجبور ہے لاچار ہے
سانس لینا بھی یہاں دشوار ہے
اس فلم کے دوسرے نغمات یہ تھے۔
۱۔ موہے بلم دیکھے ۔ اتراؤں لہراؤں(نور جہاں)
۲۔ یہی سوچ سوچ کر گم ہو جاتی ہوں (نور جہاں)
۳۔ نہ آنا نہ جانا ۔ نظر کو چرانا(احمد رشدی)
یوں تو حسن لطیف نے اس سے پہلے بھی کئی فلموں کی اچھی موسیقی بنائی تھی مگر ۶۲ اور ۶۳ ان کے لیے بہت مبارک سال تھا۔
۱۹۶۳ء میں حسن طارق کی فلم ’’شکوہ‘‘ میں انہوں نے فلم کے موضوع اور ماحول کے اعتبار سے انتہائی پر اثر موسیقی ترتیب دی تھی۔
۱۔آج محفل سجانے کو آئی(میڈم نور جہاں)
۲۔ اے دل غم زدہ ہر ستم بھول جا (سلیم رضا ، ناہید نیازی)
۳۔ انکل ٹام اکیلا ہے (احمد رشدی)
۴۔ پھر دروازہ کھلا کوئی
۵۔ ہوا چلی ویرانوں میں (ناہید نیازی)یہ ایک یادگار فلم تھی اور اس کی موسیقی بھی اس کے شایان شان تھی۔
اس کے بعد حسب معمول ایک لمبا وقفہ آگیا پھر ۱۹۶۵ء میں حسن لطیف نے فلم ’’ساز و آواز‘‘ کی موسیقی بنائی۔ اس فلم کے گانے بھی بہت اچھے اور حسن لطیف کے مزاج کے مطابق تھے۔ مثلاً
۱۔ کیوں کہیں ستم یہ آسمان نے کیے (نور جہاں)
۲۔ میں نے پی لی، جرم کیا ۔ برسات پہ بھی کچھ غور کرو(احمد رشدی)
۳۔سنگیت نہ جانے ۔ اور دکھلائے گا کب تک خواب سہانے(مہدی حسن)
۱۹۶۵ء میں فلم ’’تیرے شہر میں‘‘کے لیے حسن لطیف نے بہت اچھی موسیقی ترتیب دی تھی۔ اس بار انہیں اپنی پسندیدہ منیر نیازی کی غزل استعمال کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ 
۱۔ ان سے نین ملا کر دیکھو ۔ یہ دھوکا بھی کھا کر دیکھو (نور جہاں)
۲۔ ہٹو ہم سے نہ بناؤ جھوٹی بتیاں(نور جہاں)
۳۔ میں پھرتا ہوں آوارہ ۔ جیسے کوئی ٹوٹا تارہ (احمد رشدی)
۴۔ اللہ بخشے والدین کو ۔ کیا خوب کہا کرتے تھے (احمد رشدی)
یہ دور حسن لطیف کے لیے بہت سازگار دور تھا۔ شوکت حسین رضوی کے بیٹے اکبر حسین رضوی نے فلم ’’ماں بہو بیٹا‘‘ کیلئے حسن لطیف کی خدمات حاصل کیں اور حسن لطیف نے موسیقی کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ذرا دیکھئے۔
۱۔ لوگ دیکھیں نہ تماشا مری تنہائی کا(نور جہاں)
۲۔ جو کچھ ہوگا آج ہی ہوگا(مسعود رانا)
۳۔ نہ شاخ ہی رہی باقی نہ آشیانہ ہے(نور جہاں)
۴۔ اب اور پریشاں نہ ہو مرے دل(مہدی حسن)
اس کے بعد پھر ایک وقفہ آیا (۱۹۶۸ء میں حسن لطیف کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔
ہدایت کار ایم اسلم (یہ خلیل قیصر کے معاون رہے تھے) کی فلم ’’میں زندہ ہوں‘‘ ایک مختلف فلم تھی اس لیے کامیابی حاصل نہ کر سکی مگر حسن لطیف کی موسیقی اپنا کام کر گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم مین حسن لطیف نے پہلی مرتبہ مزاحیہ اداکار رنگیلا کو پلے بیک سنگر کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ یہ ایک دو گانا تھا جو مالا اور رنگیلا کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول یہ تھے۔
انکھیوں کی نندیا اڑ گئی۔
اس کے دوسرے نغمات یہ تھے۔
۱۔ سو جاری بھیا کی پیاری ۔ پل بھر کی یہ رات ہے (نور جہاں)
۲۔ بولو کون خریدے گا ۔ اک مجبور کی آنکھ کا کاجل (نور جہاں)
۳۔ دھیرے دھیرے بیتے دن ۔ صدیوں کی رات ہے (نور جہاں)
۶۹ میں ان کی فلم ’’ڈاکٹر شیطان‘‘ میں کوئی قابل ذکر بات نہ تھی۔ ۱۹۷۰ء میں ان کی پنجابی فلم’’دھرتی میرا پیار‘‘ کی نمائش ہوئی مگر یہ فلم ناکام رہی۔ موسیقی بھی قابل ذکر نہ تھی۔ انہیں پہلے ہی زیادہ کام نہیں ملتا تھا۔ ان دونوں فلمون کی ناکامی نے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو ایک مناسب بہانہ فراہم کر دیا۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر579 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں