مختلف ادبی وفلمی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 160

رضا میر قیام پاکستان کے بعد وہ فلمساز اور ہدایتکار بھی بن گئے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’لاکھوں میں ایک‘‘ اور ’’ناگ منی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی ایک وجۂ شہرت ان کے صاحبزادے آصف رضا میر بھی ہیں جنہوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور پھر فلموں میں بھی اداکاری کی اور نمایاں ہوئے۔وہ کچھ عرصہ ملک سے باہر رہنے کے بعد واپس آگئے ہیں اور ٹی وی ڈراموں میں دوبارہ نظر آنے لگے ہیں۔
رضا میر نے بہت سی فلموں کی ہدایتکاری کی پھر ریٹائر ہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔کچھ عرصہ پہلے کینیڈا میں انکا انتقال ہو گیا۔ بے حد نفیس اور نستعلیق قسم کے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی نجی زندگی خصوصاً مینا کے حوالے سے کبھی لب کشائی نہیں کی مگر ہمارے اوپر ہمیشہ مہربان رہے۔ ہم نے بہت اصرار سے ایک انٹرویو میں ان سے مینا کے بارے میں سوالات کئے تو انہوں نے بہت اختصار کے ساتھ جوابات دئیے۔ اس زمانے میں مینا بقیدِ حیات تھیں۔ رضا صاحب نے مینا کی سادگی اور خلوص کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ مینا کی فلموں میں وابستگی اور ان کے اہل خانہ کی ذمہ داریوں کا بھی انہوں نے ذکر کیا۔ یہ بھی بتایا کہ مینا ان کے گھر میں ایک گھریلو بیوی کے طور پر رہنے لگی تھیں مگر یہ زندگی زیادہ عرصے تک انہیں راس نہ آئی۔
مختلف ادبی وفلمی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 159 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رضا میر سے طلاق حاصل کرنے کے بعد مینا قیام پاکستان تک لاہور ہی میں رہیں۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اپنی بہن ا ور بہنوئی کے ہمراہ بمبئی کا رخ کیا۔ وہ ہدایتکار روپ کے شوری کی فلموں میں کام کر چکی تھیں۔ وہ لاہور سے بمبئی گئے تو خستہ حالی اور مالی پریشانیوں کا شکار تھے۔ مینا ان پر مہربان ہو گئیں۔ شوری کا یہ عالم تھا کہ وہ بمبئی کے جس ہوٹل میں مقیم تھے اس کا کرایہ بھی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ مینا نے ان کی مالی امداد کی اور ان دونوں نے مل کر پنجابی فلم ’’چمن‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔ اس وقت مینا اور روپ کے شوری ساتھ ہی رہنے لگے تھے۔ اس طرح ان دونوں میں ایک طویل تعلق کا آغاز ہوا۔
مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد جب مینا نے پاکستان میں قیام کرنے کا فیصلہ کر لیا تو مجبور ہو کر روپ کے شوری اکیلے ہی بمبئی واپس چلے گئے۔ دونوں اس طرح لازم و ملزوم بن چکے تھے کہ اس علیحدگی کے بعد بھی وہ مینا شوری ہی کے نام سے پہنچانی گئیں اور یہ ’’دُم چھلاّ‘‘ مرتے دم تک ان کے نام کے ساتھ لگا رہا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان دونوں نے سول میرج کر لی تھی۔ کسی کا بیان ہے کہ مینا نے شادی کے لئے ہندو مذہب قبول کر لیا تھا اور بعد میں انہوں نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں جا سکتا۔
روپ کے شوری کے ساتھ مینا کی سنگت نے شوری کو ایک نئی زندگی بخش دی تھی مگر خود مینا نے اس طرح اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی کہ ایک تو انہوں نے خود کو روپ کے شوری کے لئے ہی وقف کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ان کی آمدنی روپ کے شوری کے کام آئی۔ جب مینا ان سے علیحدہ ہوئیں تو ان کے پاس مشترکہ فلم سازی سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک حصّہ بھی نہیں تھا۔ گویا شوری سے علیحدگی کے بعد وہ خالی ہاتھ پاکستان آئی تھیں اور انہیں نئے سرے سے معاشی سفر کا آغاز کرنا تھا۔ حالانکہ اس وقت تک مینا نے جتنا کام کیا تھا اور جتنا روپیہ کمایا تھا اگر اسے سنبھال کر رکھتیں تو ایک صاحب ثروت خاتون ہوتیں لیکن پاکستان آنے کے بعد اپنی رہائش کے لئے ایک ذاتی مکان تک نہ خرید نہ سکیں اور کرائے کے مکانوں میں ساری زندگی گزار دی۔
لاہور میں پنجابی فلم ’’رت رنگیلی‘‘ میں مینا اور روپ کے شوری یکجا ہوئے تھے۔ اس رفاقت کا خاتمہ کراچی میں بننے والی فلم ’’مس 56‘‘ پر ہوا۔
مینا کراچی میں بنائی جانے والی فلم میں کام کرنے کے لئے بطور خاص کراچی آئی تھیں اس کے فلم ساز جگدیش چندر آنند تھے۔ انہوں نے اپنی دانست میں ہدایتکار اور ہیروئن کی مقبول ترین جوڑی کو اس فلم کے لئے یکجا کیا تھا۔ اسی خیال سے روپ کے شوری کو اس فلم کی ہدایتکاری کے فرائض سونپے گئے تھے۔ مینا کو ہم نے پہلی بار کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ’’مس 56‘‘ کے سیٹ پر دیکھا تھا۔ وہ ایک زرق برق خوبصورت‘ چست لباس پہنے ہوئے تھیں اور بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ اس فلم میں ان کا کردار ہلکا پھلکا مزاحیہ انداز کا تھا۔ اس قسم کی فلموں میں انہوں نے اپنی مہارت اور انفرادیت کا لوہا منوایا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ انہوں نے مزاحیہ فلموں میں ہی کام کرنے کو ترجیح دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی سنجیدہ اور ڈرامائی فلموں کی اداکارہ نہیں تسلیم نہیں کی گئیں۔ نہ ہی اس کے لئے انہوں نے کبھی کوشش کی۔
روپ کے شوری نے پنجابی فلم ’’چمن‘‘ کے بعد اپنی فلم ’’رت رنگیلی‘‘ کو دوبارہ ’’ایک تھی لڑکی‘‘ کے نام سے اردو میں بنایا۔ اس فلم میں مینا کے ساتھ وقت کے مقبول ہیرو موتی لال نے کام کیا تھا۔ ایک تھی لڑکی بہت کامیاب ہوئی۔ اس فلم کا ایک گانا جس کے بول یہ تھے
لارا لپا لارا لپائی لائی رکھ دا۔۔۔ اس قدر مقبول ہوا کہ ہر ایک کی زبان پر چڑھ گیا اور آج بھی یہ مقبول گانا ہے۔ یہ گانا مینا شوری پر فلمایا گیا تھا۔ اس کے حوالے سے وہ ’’لارا لپا گرل‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئیں اور پھر یہ لقب ان کے نام کا حصہ بن کر رہ گیا۔
شوری نے دو اور کامیاب فلمیں بنائیں ۔ ’’ڈھولک‘‘ کے ہیرو موتی لال تھے جبکہ ’’ایک دو تین‘‘ کے ہیرو اجیت تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک تھی لڑکی‘‘ کی نمائش کے بعد ہی مینا نے کلکتہ جا کر ہندو رسم و رواج کے مطابق شوری سے شادی کر لی تھی اور ہندو مذہب اختیار کر لیا تھا۔ اس کے بعد وہ مینا شوری کہلائیں اور اور ’’شوری‘‘ ہمیشہ کے لئے ان کے نام کا ایک حصہ اور پہچان بن کر رہ گیا۔ مینا کی شوری سے شادی اور مذہب کی تبدیلی فلمی دنیا کے مسلمان فنکاروں اور ہنرمندوں کے علاوہ عام مسلمان کے لئے بھی ایک بڑا صدمہ تھا۔ اس شادی کے بعد مینا کا مسلمانوں سے ہر طرح کا واسطہ ختم ہو گیا۔
1954ء میں وہ اس شادی کے بعد روپ کے شوری کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں سے ملنے کے لئے لاہور آئی تھیں مگر ہماری ان سے ملاقات نہ ہو سکی تھی حالانکہ ہم ’’آفاق‘‘ کے لئے فلمی صفحہ مرتّب کیا کرتے تھے اور فلمی حلقوں میں بہت زیادہ آمد و رفت تھی۔
’’مس 56‘‘ کے سیٹ پر مینا سے سرسری ملاقات ہوئی تھی۔ ہم چند روز کے لئے کراچی گئے تھے۔ اس لئے تفصیلی گفتگو نہ ہو سکی مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ مینا آئندہ کے لئے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیں گی اور لاہور میں رہائش اختیار کریں گی۔ انہوں نے ہماری فلم ’’میرا گھر‘ میری جنّت‘‘ میں کام بھی کیا۔ ہماری لکھی ہوئی فلموں میں بھی اداکاری کی اور اس طرح ہمیں ان سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ مینا کو مس 56 کی تکمیل کے دوران ہی میں مختلف پاکستانی فلمسازوں کی طرف سے آفرز کی گئی تھیں۔ انہیں پاکستان کی قومیت بھی حاصل ہو چکی تھی۔ ’’مس 56‘‘ کی تکمیل کے بعد مینا نے روپ کے شوری کی منت سماجت کے باوجود بمبئی جانے سے انکار کر دیا اور پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں ایک حیثیت جہانگیر خان کو بھی حاصل تھی۔ جہانگیر خان اس زمانے میں محکمہ اطلاعات میں افسر تھے اور کراچی میں تعینات تھے۔ ان کا تذکرہ ہم شباب کیرانوی کے ضمن میں کر چکے ہیں۔ جہانگیر خان (اداکار شامل خان کے والد)ایک خوبرو اور وجیہہ انسان تھے۔ یہ لاہور کے انگریزی روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں رپورٹر تھے۔ سید شوکت حسین رضوی کی نظر ان پر پڑ گئی اور انہوں نے اپنی فلم ’’چن وے‘‘ میں انہیں کاسٹ کر لیا۔ جہانگیر خان صحافت چھوڑ کر فلم سے وابستہ ہو گئے لیکن ’’چن وے‘‘ کی کامیابی کے باوجود فلم بینوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔ آدمی سمجھ دار تھے انہوں نے ایک ہی تجربے کے بعد اداکاری کو دور سے سلام کیا اور محکمہ تعلقات عامہ میں ملازم ہو گئے۔ ذہین اور محنتی آدمی تھے اس لئے بہت جلد ترقی کر لی۔ ہماری ان سے صحافت ہی کے زمانے میں اچھی یاداللہ تھی۔ وہ بہت دیانتدار‘ کٹر محب وطن اور اصول پرست آدمی تھے۔(جاری ہے)
مختلف ادبی وفلمی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 161 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)