پاک سعودی تعلقات اور پی ٹی آئی
پاکستان تحریک انصاف ایک منظم سیاسی جماعت ہے لیکن جب سے ان کے رہنما عمران خان جیل گئے ہیں اس کے بعد پارٹی کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے اور پارٹی کو لیڈ کس نے کرنا ہے کسی کو کوئی نہیں پتہ ایک بندہ پالیسی بیان جاری کرتا ہے تو دوسرا اس کی تردید کر دیتا ہے۔پارٹی میں اگر ایک رہنما کہتا ہے کہ ہمارے حکومت سے مذاکرات ہو رہے ہیں تو کوئی دوسرا پی ٹی آئی رہنما تردید جاری کر دیتا ہے۔اسی طرح تحریک انصاف کی قیادت خود بھی کنفیوڑ ہے کہ انہوں نے الزام تراشی کس پر کرنی ہے، ٹرمپ کی جیت سے قبل عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور ان کے جیل جانے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا جا رہا ہا تھا اور امریکی سازش کا بڑا چرچا تھا کہ امریکہ نے سازش کر کے عمران خان کی حکومت ختم کی ہے۔ لیکن جیسے ہی امریکہ میں انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گیا تو تحریک انصاف نے بھی امریکہ کے متعلق اپنا رویہ اور اپنے الزامات تبدیل کر لئے اوراب امریکی یا غیر ملکی سازش کا ذکر کم ہو گیا کیوں کہ تحریک انصاف کے حلقوں میں اس بات کا احساس ہے، ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستان میں عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی کردار ادا کریں اور اس طرح اگر ایسے میں انہوں نے امریکہ کیخلاف محاذ بنائے رکھا تو ٹرمپ ناراض ہو جائیں اور اس طرح عمران خان کی رہائی کا معاملہ بھی لٹک جائے اس لئے اب تحریک انصاف کو ایک ایسا بہانہ چاہئے تھا، جس پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا الزام دھرا جا سکے اور اب کی بار بشری بی بی نے سارا الزام سعودی حکومت پر ڈالنا مناسب سمجھا۔ اس الزام کے پس پردہ محرکات کو میں تھوڑا بیان کرنا مناسب سمجھوں گا کیوں کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا سلمان بن عبدلعزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان نے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بڑے واضح انداز میں اسرائیل کی مذمت کی ہے اور امریکہ کو پیغا م دیا ہے کہ وہ امریکہ کے کسی بھی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں اسرائیل کو قبول کرنا پڑے یا اسرائیل کی حمایت کا پہلو نکلتا ہو اور پھر سعودی عرب نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی واضح انداز میں مذمت کی ہے اور اسرائیل کو جارح ملک قرار دیا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ ایران کی بھی مخالف ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان بھی چین کی ثالثی میں ایران کے ساتھ سرد تعلقات کو گرمجوشی والے تعلقات میں بدل چکے ہیں اور ایسے میں پاکستان جیسے اہم ملک کے سابق وزیراعظم کی بیوی کا سعودی قیادت پر الزام لگانا کہ انہوں نے ان کے شوہر کی حکومت کو گرانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے یہ سب تانے بانے بتاتے ہیں کہ سعودی عرب پر الزام تراشی کسی عالمی سازش کا حصہ ہے اور پی ٹی آئی جانے انجانے میں اس سازش میں ملوث دکھائی دیتی ہے۔ جہاں تک پاک سعودی تعلقات کی بات ہے تو بشری بی بی نے جس دورے کا اپنے بیان میں ذکر کیا ہے کہ عمران خان ننگے پاؤں مدینہ گئے تو اسی دورے کے بعد سعودی عرب کی قیادت نے انہیں بیش قیمت تحائف دیئے تھے جن کے غبن کا الزام عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی پر لگا۔ اگر سعودی عرب کی قیادت کو عمران خان سے اتنی ہی تکلیف ہوتی تو وہ انہیں اتنے قیمتی تحائف ہی نہ دیتے اور جہاں تک پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی کا معاملہ ہے تو سعودی عرب کبھی بھی اس طرح کی سیاست میں ملوث نہیں رہا بلکہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کو پس پشت ڈال کر صرف پاکستان کو مقدم رکھا ہے اور ہمیشہ پاکستان کی ہر مشکل وقت میں مدد کی ہے۔پاکستان کو جب کبھی مشکل آن پڑی تو سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور حال ہی میں سعودی قیادت نے اربوں ڈالر پاکستان کے زرمبادلہ کیلئے دیئے تا کہ پاکستان ایک مشکل مرحلے سے نکل سکے۔اسی طرح عمران خان کے دور میں بھی سعودی قیادت نے پاکستان کو اس وقت تین ارب ڈالر دیئے تھے تا کہ پاکستان اپنے زر مبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بنا سکے اور اسی طرح شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ بھی عمران خان کے دور میں کیا اور عمران خان نے خود انکی گاڑی ڈرائیو کی تھی یہ سب ذکر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ سعودی عرب نے کبھی بھی پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور پاکستان میں جو بھی حکمران بنا سعودی عرب کی قیادت نے ان کو ویلکم ہی کیا ہے۔ کیوں کہ تعلقات شخصیات کے درمیان نہیں دو ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اس لئے بشری بی بی کی جانب سے سعودی عرب کی قیادت پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا الزام لگانا ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت بوکھلا چکی ہے اور وہ اب امریکہ کے بعد اپنی حکومت گرائے جانے کا کوئی ایسا الزام ڈھونڈنا چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کی نظر میں سرخرو ہو سکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ اصل میں ان کی حکومت تو باہر سے گرائی گئی تھی اوراس کا ذمہ دار سعودی عرب ہے اورپھر خود کو شریعت کا ٹھیکیدار بتانا اور جو لوگ سارا سال حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں انہیں شریعت سے بیزار بتانا دو متضاد باتیں ہیں۔رہی بات عمران خان کی حکومت میں کتنا شریعت پر عمل ہوتا تھا وہ سارا پاکستان جانتا ہے اس لئے بشری بی بی یا پی ٹی آئی کو چاہئے کہ اپنی سیاست کیلئے پاک سعودی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش مت کریں کیوں کہ اس میں آپ کو تو شاید فائدہ ہو جائے لیکن اس کا نقصان پاکستان کو ہو سکتا ہے۔