پشاور کے مدرسے میں بم دھماکہ، وقفے کے بعد دہشت گردی پھر شروع
جب سے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا ہے بعض حلقوں کی جانب سے برملا کہا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف احتجاجی جلسے نہ کرے کیونکہ دہشت گردی کا امکان ہے اور ملک کا امن و امان تباہ ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ پنجاب کے صنعتی شہر گوجرانوالہ میں ہونے والا پہلا جلسہ تو پر امن گزر گیا تاہم کوئٹہ میں اپوزیشن کے جلسے کے روز ہی دہشت گردانہ کارروائی دیکھنے میں آئی جب کہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں احتجاجی جلسے سے پہلے ہی ایک مدرسہ دہشت گردی کی زد میں آ گیا وفاقی وزیر شیخ رشید نے کوئٹہ اور پشاور دونوں شہروں میں امن دشمن کارروائیوں کی پیش گوئی کی تھی جو درست ثابت ہوئی گزشتہ روز پشاور میں مدرسے کو ٹارگٹ کیا گیا، عین اس وقت جب بچے تدریسی عمل سے گزر رہے تھے تو خوفناک بم دھماکے نے پورا مدرسہ ہلا کر رکھ دیا۔ قوم ابھی آرمی پبلک سکول کا سانحہ نہیں بھولی اور شہدائے اے پی ایس کی قبروں کی مٹی اور خون بھی تازہ ہے کہ کوہاٹ روڈ کے اس مدرسے کو ہدف بنا لیا گیا۔ ابتدائی طور پر ملنے والی تفصیلات کے مطابق کوہاٹ روڈ پر واقع مدرسے میں دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 8 افراد شہید اور کم و بیش100 زخمی ہو گئے۔سی سی پی او پشاور محمد علی گنڈا پور کے مطابق دھماکا مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، بارودی مواد 5 سے 6 کلو وزنی تھا۔ ریسکیو ذرائع نے بتایا ہے منگل کے روز مدرسے میں تدریسی سلسلہ جاری تھا، دھماکے کے نتیجے میں شہید و زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد طلباء کی ہے۔پولیس، سیکیورٹی فورسز اور ریسکیو ٹیمیں دھماکے کے مقام پر پہنچ گئی تھیں، زخمی ہونے والے متعدد بچوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حکام کے مطابق ہسپتال میں 5 لاشیں لائی گئی تھیں جاں بحق ہونے والے افراد کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ ہسپتال میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا اور ڈاکٹروں سمیت چھٹی پر گئے ہوئے سٹاف کو بھی ہنگامی طور پر واپس بلا لیا گیا۔ پشاور پولیس کے مطابق دھماکا ٹائم بم کے ذریعے کیا گیا جبکہ دھماکا خیز مواد بیگ میں رکھ کر مدرسے میں لایا گیا تھا۔ آئی جی خیبر پختون خوا ثناء اللّٰہ عباسی نے دھماکے میں 6 افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق عمومی تھریٹ الرٹ تھا، دھماکے کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ حکام نے ابھی کچھ نہیں بتایا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ واقع میں غیر ملکی ساختہ بارود استعمال کیا گیا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس امن دشمن کارروائی میں سرحد پار کے پاکستان دشمن عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دوحہ امن مذاکرات کے بعد افغانستان میں جو حالیہ دہشت گردانہ کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں ان کا ردعمل بھی پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں ہو سکتا ہے۔ ہم نے انہی سطور میں بار ہا یہ تحریر کیا ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے جب بھی سرحد پار امن و امان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا ردعمل ہمارے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض قوتوں کو افغانستان میں امن و امان کا دور دورہ ایک آنکھ نہیں بھاتا جبکہ پاکستان کے حوالے سے بھی اسی قسم کی صورت حال ہے اور بعض قوتیں پاکستان میں امن سبوتاژ کرنے کے در پے ہیں۔ حالیہ مذموم کارروائی بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے، اگرچہ دہشت گردی کی یہ واردات طویل عرصے بعد رونما ہوتی ہے اور دہشت گرد ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ سرگرم دکھائی دیئے ہیں لیکن سانحہ مدرسہ کے تمام پہلوؤں کا اعادہ کرتے ہوئے اس کی باریک بینی سے تفتیش کی جانی چاہئے اور گزشتہ واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک پہلو کا بغور جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ امن دشمن کارروائیوں کو سیاسی عینک سے دیکھنا درست نہیں ہوگا کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس قسم کے واقعات اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو دبانے یا مزید بڑھانے کے لئے کروائے جا رہے ہوں۔ سرحد پار سے کی جانے والی کارروائیوں کے تناظر میں بھی معاملات کی چھان بین ضروری ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے کھوج لگانے میں مصروف ہیں، امید کی جانی چاہئے کہ مدرسے میں ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقاتی رپورٹ سے عوام کو بھی با خبر رکھا جائے گا۔
اہل پشاور کے لئے بالخصوص اور خیبر کے باسیوں کے لئے بالعموم یہ سانحہ بڑا افسوسناک اور دلخراش ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک حوصلہ افزا خبر یہ ملی ہے کہ کچھ عرصے کے توقف کے بعد میٹروبس سروس دوبارہ شروع ہو گئی ہے یہ برق رفتار سفری سہولت افتتاح کے فوری بعد ہی بسوں میں پراسرار آتش زدگی کی بنا پر روک دی گئی تھی، بسوں کو آگ لگنے کے ساتھ ساتھ میٹرو سٹیشن اور ٹریک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ صوبائی حکومت کے مطالبے پر چین سے ماہر انجینئرز کی ایک ٹیم پشاور آئی جس نے متاثرہ بسوں کا معائنہ کیا۔ البتہ آگ لگنے کی وجوہات اور پس پردہ محرکات کی رپورٹ تو منظر عام پر نہیں آئی تاہم ابتدائی طور پر اتنا ہی کہا جا رہا ہے کہ بسوں میں آگ فنی خرابی کے باعث لگی۔ اس کی جو بھی وضاحت کی جائے لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پنجاب میں میٹرو بس سروس کے آغاز سے کئی سال تک اس طرز کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، چھوٹے موٹے مسائل یہاں ہوتے رہتے ہیں لیکن ابتدا میں ہی بڑے سانحات کا رونما ہونا نیک شگون نہیں۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سیاسی سرگرمیوں میں خاصی تیزی آئی ہے اور جوڑ توڑ کی سیاست بھی عروج پر ہے۔ مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے اختلافات ختم کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین خیبر کی ان دونوں متحرک جماعتوں کو قریب لانے اور معاملات طے کرانے کے لئے سرگرم ہیں اور اس حوالے سے ایک باقاعدہ فارمولا بھی طے کیا جا رہا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے خیبر پختونخوا حکومت یا پاکستان تحریک انصاف سے ناراض رہنماؤں سے رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے سابق سینئر صوبائی وزیر عاطف خان سمیت پی آئی میں شامل کئی صوبائی رہنماؤں سے اپوزیشن کے قائدین نے ملاقاتیں بھی کی ہیں اور انہیں اس بارے میں قائل کیا جا رہا ہے کہ وہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک بنا لیں تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان ناراض رہنماؤں میں اس پیشکش کا کیا جواب دیا ہے۔