پطرس بخاری
گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل پطرس بخاری کی کتاب ”پطرس کے مضامین“ اردو ادب میں انہیں ظریفانہ نثر کے خالق کے طور پر نہ صرف زندہ جاوید کر چکی ہے بلکہ وہ طنزیہ نثر کے اراکین خمسہ میں شامل ہیں۔ ان کا مضمون ”ہاسٹل میں پڑھنا“ ایک شاہکار مضمون ہے جس سے قاری کے ہونٹوں پر مسلسل ایک مسکراہٹ رہتی ہے اور جب مضمون ختم ہوتا ہے تو قاری اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور خوشگوار محسوس کرتا ہے۔
تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندر سبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا، کیونکہ ہمارے ماموں کا ایک قول ہے کہ ڈو بتا وہی ہے جو تیراک ہوجسے تیرنانہ آتا ہو، وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر پر آنے جانے والوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے، اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں، ان کے متعلق ہدایت بہت کڑی تھی۔ ہفتے میں دوبار خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے، گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی، یہ سپاہیا نہ زندگی ہمیں راس نہ آئی، یوں تو دوستوں سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی، سیر کو بھی چلے جاتے، ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن زندگی میں جو ایک آزادی، ایک فراخی، ایک ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کس کمرے کے کونے میں جھانکنا ناممکن ہے، گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت کھولا جاسکتا ہے، کون سا ملازم نا موافق ہے؟ کونسا نمک حلال، جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تو ہم نے اس زندگی میں نشوونما کے لئے چند گنجائشیں پیدا کرلیں۔ لیکن پھر بھی روزانہ دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کس طرح اپنے پاوں پر کھڑے زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں، ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش روز بروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں ہے، لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے فرض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتی۔
چنانچہ گرمیوں کی تعطیلات میں واپس گیا تو چند مختصر، مگر جامع اور موثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار کر رکھیں، گھر والوں کا ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نوجوان کے لئے ازحد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ئے ہزارہا واقعات اپنے تصنیف کئے جن سے ہوسٹل کے قواعد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہوجائے۔ سپرنٹنڈنٹ کے ظلم وتشدد کی چند مثالیں رقت انگیز فقہ خیز پیرائے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کرکے ایک آہ بھری اور بیچارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا۔ ایک دن شام کے وقت بچارا ہاسٹل سے واپس آرہا تھا۔ چلتے چلتے پاوں میں موچ آگئی، دومنٹ دیر سے سے پہنچا، صرف دو منٹ بس صاحب بس، پھر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے تار دے کر اس کے والد کو بلوایا۔ پولیس سے تحقیقات کرانے کو کہا۔ اور مہینے بھر کے لئے اس کا جیب خرچ بند کروا دیا۔
لیکن یہ واقعہ سن کر گھروالے سپرنٹنڈنٹ کے مخالف ہوگئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی، پھر ایک دن موقع پاکر بیچارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بیچارہ سنیما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے درجے میں جانے کی بجائے وہ دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی ہی فضول خرچی پر اسے عمر بھر سنیما جانے کی ممانعت ہوگئی ہے۔
لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے رویہ سے بس مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپیہ اور دو روپے کی بجائے آٹھ آنے اور ایک روپیہ کہنا چاہیے تھا۔
انہیں ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آکر سجدہ کیا۔ اگلی گرمیوں میں چھٹیوں میں جب ہم پھر گھر آئے تو ہم نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔
دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی آگئی تھی۔ پچھلے سال ہاسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کئے تھے۔ وہ اب نہایت بھدے معلوم ہونے لگے تھے۔ اب ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا۔ کہ جو شخص ہاسٹل کی زندگی سے محروم ہو اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہر شخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے اور نفسیات کے نقطہ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا۔ اور جب مثالوں کی نوبت آئی تو ذرا دقت محسوس ہوئی۔ کالج طلباء کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتوں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جاسکے، ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہے جانتا ہے کہ والدینی اغراض کے لئے واقعات کو ایک نئے اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے،لیکن اس نئے پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفاق پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کر سکتے اور بعض نالائق سے نالائق طالب علم والدین کو کچھ اس طرح مطمئن کر دیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر پر منی آرڈر چلا آتا ہے۔
بنا داں آن چناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیران ماند
جب ہم ڈیڑھ مہینے شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر، اس کا انحصار، ان دو مضمونوں پر وقتاً توقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ایک دن والد نے پوچھا۔
تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟
میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض ومعروض کا موقع دیں۔
میں نے کہا:
دیکھئے نا! مثلاً ایک طالب علم ہے وہ کالج میں پڑھتا ہے، اب ایک تو اس کا دماغ ہے۔ ایک اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی، لیکن ان کے علاوہ ایک اور بھی بات ہوتی ہے،جس سے آدمی گویا پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ صرف دماغ بھی بیکار ہو، لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔۔۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے…… ٹھہریئے میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔
ایک منٹ کی بجائے والد صاحب نے مجھے آدھ گھنٹہ کی مہلت دی، جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔
تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہیے۔
(جاری ہے)